مگر پتھر نہیں گلتے

289

پہلے ایک نظم:
مگر پتھر نہیں گلتے
نجانے کب سے بیٹھی ہوں
جلا کر آگ چولھے میں
بڑے سے دیگچے میں پھر
بہت سا پانی ڈالا ہے
کبھی چمچ چلاتی ہوں
کبھی ڈھکن ہٹاتی ہوں
مگر پتھر نہیں گلتے
میرے سب بچے بھوکے ہیں
مجھے بھی بھوک کھاتی ہے
نہ سالن ہے نہ روٹی ہے
فقط پتھر ہی باقی ہیں
پکانے کا سلیقہ ہے
بہت آساں طریقہ ہے
مگر پتھر نہیں گلتے
سنا ہے دور وہ بھی تھا
خلیفہ خود نکلتا تھا
کوئی بھوکا کوئی پیاسا
اگر اس رات ہوتا تھا
بھرا گندم سے اک تھیلا
کمر پہ لاد لاتا تھا
یہاں کوئی نہیں آیا
نجانے کب سے بیٹھی ہوں
مجھے جو بھی میسر ہے
میں بچوں کو کھلاتو دوں
مگر پتھر نہیں گلتے
پانی بھی کہاں تک پکایا جائے؟ غر بت کی تیز آگ میں بھوک کب تک گلائی جائے؟ بچے بھوک سے بلک رہے ہوں اور بچوں کو کھانے کے لیے کچھ دینے کو نہ ہو تو پھر اپنے آپ کو اور اس دنیا کو آگ لگانے کو دل کرتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت پاکستان کی سب سے پر تشدد حکومت ہے۔ اس حکومت کے شانوں پر غریبوں کی بھوک کا بوجھ ہے۔ اپنے اعصاب اور حواس کو سنبھالنے کی طاقت سے محروم عمران خان کا ریاست مدینہ کا دعویٰ ایک آرائشی دعویٰ تو تھا لیکن وہ اس طور غریب دشمن، بے معنی اور کھو کھلے ہیں، انسانوں کے دکھوں سے سروکار رکھے بغیر محض سیاسی حربوں میں عرصہ اقتدار گزارنا چا ہتے ہیں اس کا اتنا اندازہ کسی کو نہیں تھا۔ سپہ سالار اعظم حضرت قمر جاوید باجوہ نے کل تقریر میں عمران خان کی حکومت کے لیے اپنی تائید کا اعلان کیا لیکن ایسی حکومت کسی انسان کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی جو بھوک کے خاتمے میں دلچسپی لینا تو ایک طرف بھوک میں اضافے کا باعث ہو۔ بھوک انسانوں کا سب سے بڑا اتحاد ہے، جب بھوک ایک صف میں یکجا ہوتی ہے تو سب کچھ بہا کر لے جاتی ہے۔ جب بھوک آبادیوں میں گونجتی ہے تب اس گونج سے بے نیاز حکومتوں کو کوئی نہیں بچا سکتا۔ فوجیں بھی نہیں۔ عمران خان اور ان کے سلیکٹرز کو انسانی المیوں اور اذیتوں کا احساس ہی نہیں، حکومتوں کے لیے جن سے زیادہ مہلک کوئی چیز نہیں۔
اقتدار میں آنے کے بعد، لگتا ہے عمران خان کو اس ملک کے لوگوں اور غریبوں سے انسان ہونے کے ناتے کوئی سروکار ہے اور نہ اخلاقی ملال۔ حیرت ہوتی ہے اپنے ضمیر کی عدالت میں وہ خود کو کیسے آزاد محسوس کرتے ہیں، کیسے ہمہ وقت اپنی توانائیاں محض انتقام میں جھونکتے رہتے ہیں۔ انسانی ہمدردی اور بے حد وحساب گرانی ایک ساتھ کیسے ممکن ہیں۔ محض اپوزیشن سے دودو ہاتھ کرنے، اپوزیشن کی کرپشن کے دعوے کرنے اور اپنے ساتھیوں کی اس کرپشن کو نظر انداز کرنا جس نے آٹا، چینی، ادویات اور اشیاء صرف کی قیمتوں کو غریبوں کی رسائی سے دور آسمان پر پہنچادیا ہے، ایسی حکومت کو کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے۔ روز مرہ کی سیاست اور سمجھوتوں نے عمران خان کی عقل مائوف کردی ہے۔ محض اقتدار کسی کو حکمران نہیں بنا سکتا، محض لکیریں کھینچنے اور برش چلانے سے کوئی پکاسو نہیں بن جاتا۔ غریبوں کی بھوک اور عوام سے لاتعلقی کو زیادہ عرصہ برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ڈھائی سال بہت ہوتے ہیں۔ عمران خان طاقت کے بل پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ طاقت پر مبنی کامیابی، کامیابی کی سب سے موہوم اور غیر اصلی شکل ہے۔
کوئی بھی حکومت اس لائق نہیں کہ اس کی پروا کی جائے، اسے گوارا کیا جائے اگر وہ غریبوں کے گھروں میں بھوک بوتی ہے، غربت کی آبیاری کرتی ہے، بے روزگاری میں اضافہ کرتی ہے، زندگی کو تکلیف اور شرمندگی میں ڈھالتی ہے۔ عمران خان اس ہولناک درباری کلچر میں پھنس کر رہ گئے جہاں حکمران کو کچھ پتا نہیں ہوتا۔ اسٹیٹ بینک نے روپے کی قدر گرادی انہیں نہیں معلوم، گندم کے برآمد کنند گان کو سبسڈی دے دی گئی انہیں نہیں معلوم، شوگر مافیا نے قوم کو اربوں روپے کا ٹیکا لگادیا انہیں نہیں معلوم، آٹے کی بوری 1500روپے کی ہوگئی انہیں نہیں معلوم، ادویات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوگیا انہیں نہیں معلوم، عمران خان کے ’’نامعلوم‘‘ کی فہرست بہت طویل ہے۔ ان کے اس ’’نامعلوم‘‘ اور محدود شعور نے اس ملک کے غریب عوام کی زندگی میں کس طرح انگارے بھردیے ہیں۔ اپنی شخصیت کے سحر میں کھوئے، منتقم مزاج، غریبوں کے دکھ درد سے بے نیاز، عمران خان ایک بوالعجب، اوٹ پٹانگ اور نامکمل آدمی ہیں۔ نامکمل آدمی نہ کسی صداقت تک پہنچ سکتا ہے اور نہ درست طریقے سے حکومت کرسکتاہے۔ انہیں اب چلے جانا چاہیے۔