شرَفِ عالم
میں: تمہارا نام کیا ہے؟
وہ: اپنا نام تو مجھے یاد نہیں، کیوں کہ مجھ پر زمانے کی وہ وہ افتاد پڑی ہے کہ میں اپنا نام تو کیا، اپنے وجود سے بھی آگاہ نہیں ہوں۔ اور دن میں کئی بار خود کو ہاتھ لگا کر دیکھتا ہوں کہ میں زندہ بھی ہوں یا نہیں۔ تم چاہو تو مجھے ’’پچکا ہوا آدمی‘‘ کہہ کر پکارسکتے ہو۔
میں: پچکا ہوا آدمی! یہ کیا بات ہوئی، بھلا آدمی بھی پچکا ہوا ہوتا ہے میں نے تو آج تک کوئی پچکا ہوا آدمی نہیں دیکھا
وہ: حیرت کی بات ہے تم نے آج تک پچکا ہوا آدمی نہیں دیکھا اب تو اس دنیا میں ہر طرف پچکے ہوئے آدمی ہی موجود ہیں بلکہ اب آدمی اپنی اصل شکل میں ملتا ہی نہیں۔ اس زمین پر آدمیوں کی ایک ہی قسم باقی بچی ہے اور وہ ہے پچکا ہوا آدمی
میں: میں تمہاری بات بالکل نہیں سمجھا، کیسی عجیب بات کر رہے ہو تم؟
وہ: میرے دوست آدمی پچکتا ہے دبائو پڑنے سے جیسے گھی کا ڈبہ اتارنے چڑھانے اور رکھنے رکھانے میں کہیں نہ کہیں سے پچک جاتا ہے ویسے ہی آج کا انسان بھی سماج میں مختلف طرح کے دبائو تلے پچکتا چلا جارہا ہے۔
میں: اچھا تم سماج کے دبائو کی بات کررہے ہو
وہ: ہاں یہ سماج کا دبائو ہی تو ہے جو مجھے اپنی مرضی سے جینے نہیں دیتا کھل کے کوئی کام کرنے نہیں دیتا
میں: مثلاً
وہ: میری خواہش تھی کہ شاعر اور ادیب بنوں، پر میرے گھر والے مجھے ڈاکٹر، انجینئر بنانا چاہتے تھے، مجھے سنہرے فریم والی سہیلی پسند تھی تو کہا جہاں ہم چاہیں گے وہاں تمہارا بیاہ ہوگا۔
میں: پھر تم نے کیا کیا؟
وہ: وہی جو سب کرتے ہیں، پچک گیا فرمانبردار اولاد سے تابعدار شوہر کا سفر کب طے ہوا احساس ہی نہیں ہوا
میں: لیکن شادی کے بعد تو انسان زیادہ خود مختار ہوجاتا ہے اور وہ خود ایک خاندان کا سربراہ بن جاتا ہے تب تو تم اپنی خواہش اور مرضی سے جی سکتے تھے۔
وہ: یہ ادراک تمہیں اس وقت ہوگا جب تم خود اس تجربے سے گزرو گے میرے بھائی تب تو آدمی ہمیشہ کے لیے پچک جاتا ہے کہیں روزگار کی مجبوری آڑے آجاتی ہے تو کبھی بیوی بچوں کی ضرورتیں سر اٹھانے لگتی ہیں اپنی ذات کے لیے سوچنے کا وقت ہی نہیں ملتا بقول انور شعورؔ
کٹ گیا فکرِ معاش و فکرِ روزی میں شباب
اس طرح غارت ہوئی فصلِ بہاری عمر کی
میں: میرے دوست اپنے لیے وقت تو اس تمام مصروفیت کے ساتھ بھی نکل سکتا ہے… مجھے تو تمہاری باتوں سے منافقت کی ُبو آرہی ہے۔
وہ: میرے دوست آج کے انسان کی پچکی ہوئی حالت دراصل منافقت ہی کی ایک شکل ہے جب ہمارا کوئی کام اٹک جاتا ہے یا ہم کسی معاملے میں پھنس جاتے ہیں تو پھر کیا مذہب، کیا رسولؐ کی محبت اور کیا سماجی ضابطے اور تقاضے سب کو پس پشت ڈال کر ہم فوراً پچک جاتے ہیں۔
میں: یعنی تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ ہم اپنے ذرا سے وقتی مفاد کے لیے ہر طرح کی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں؟
وہ: ہاں شاید تم صحیح سمجھے ہو۔
میں: لیکن کبھی کبھی ایسا کرنا مجبوری بھی تو بن جاتا ہے۔
وہ: مجبوری اور عادت میں بڑا فرق ہوتا ہے اور جیسا تم نے کہا کہ مجبور آدمی کبھی کبھی ہوتا ہے، مگر عادت اس کی ذات کا حصہ بن جاتی ہے۔
آج ہم جوکچھ کرتے نظر آتے ہیں ہو وہ ہماری مجبوری نہیں عادت بن چکا ہے، اسی لیے میں کہتا ہوں آج کے انسان کا وجود مکمل طور پر پچک چکا ہے اور اس نے اپنی ذات کو اتار کر خود پر اتنے خول چڑھالیے ہیں کہ وہ ہر حالت میں پچکا ہوا نظر آتا ہے۔