اصل اپوزیشن مہنگائی یا پی ڈی ایم؟

213

ملک میں مہنگائی میں ہوش رُبا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ آئی ایم ایف کا ٹیکس لگانے کا مطالبہ امریکی ’’ڈومور‘‘ کی طرح میز پر مستقل طور پر موجود ہے۔ یوں لگتا ہے کہ عالمی اقتصادی غارت گر انسانوں کی رگوں سے معیشت کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ کر اپنی پیاس بجھانا چاہتا ہے۔ دنیا میں مہنگائی اور کساد بازاری کی ایک لہر سے آئی ہے اور کورونا بحران نے اس صورت حال کو مزید ابتر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتوں کے پاس اس کا حل ٹیکسوں کا نفاذ اور اضافہ ہے۔ جس کا دوسرا مطلب مہنگائی میں اضافہ ہے۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ٹیکس دہندگان کا دائرہ بڑھانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ملک کے وسائل سے مستفید ہونے والوں کی اکثریت ٹیکس نیٹ میں آنے کو تیار نہیں۔ سیلابوں، زلزلوں، آفتوں کے دوران اور اسپتالوں اور مدرسوں کی تعمیر ومرمت کے لیے اپنا دل اور مٹھی کھولنے والی قوم حکومتوں کو ٹیکس دینے سے گریزاں رہتی ہے۔ یہ حکومتی سسٹم پر عوام کے عدم اعتماد کا انتہائی درجہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ کرپشن اور محکمانہ وسرکاری بدعنوانی ہے۔ یہ تاثر معاشرے میں اپنی مضبوط جڑیں پکڑ چکا ہے کہ یہاں نیچے سے اوپر تک حکومتی نظام کرپٹ ہے۔ اس لیے لوگ ٹیکس دینے سے گریز کرتے ہیں۔ ٹیکس چھپانے اور بچانے کو کوئی اخلاقی اور قانونی جرم نہیں سمجھتے۔ اسی وجہ سے یہاں ٹیکس دہندگان کا ایک مخصوص حلقہ ہے جس میں اضافے کے بجائے کمی ہوتی جا رہی ہے۔ ٹیکس دہندگان بے چارے ’’اُس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یا د کیا‘‘ جیسی صورت حال کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کی قانون پسندی ان پر معاشی بوجھ بڑھاتی ہی چلی جاتی ہے۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کا حکومتوں کے پاس آسان حل یہی رہا ہے کہ جنرل سیلز ٹیکس کے نام پر مہنگائی میں اضافہ کیا جائے۔ افسوسناک حقیقت یہ کہ اس عتاب کا اصل شکار وہ شہری ہوتا ہے جس کا ٹیکس چوری سمیت کسی مجرمانہ سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ ملک کا غریب اور دہاڑی دار طبقہ ہوتا ہے جو اپنی محنت کی کمائی کھاتا ہے۔ جو کام پر نہ جائے تو رات کو چولھا ٹھنڈا رہتا ہے۔ حکومت اسے صرف ایک رعایت دیتی ہے کہ اسے پیسوں کے عوض ضرورت کی شے مل جاتی ہے۔ اس کے سوا یہ شہری حکومت کا کسی طور احسان مند نہیں ہوتا۔ یوں مہنگائی کے نتیجے میں غریب غریب تر ہوتا ہے اور صاحب ثروت اور صاحب حیثیت لوگ اپنے دن معمول کے مطابق گزارتے ہیں کیونکہ انہیں مہنگے سستے کی بحث سے کوئی واسطہ ہوتا ہے نہ یہ ہوائیں اس دہلیز کا رخ کرتی ہیں۔
یہ بات اب بہت پرانی ہوگئی ہے کہ ہمارا بجٹ آئی ایم ایف بناتا ہے۔ مقروض مگر عیاش قوموں کا مقدر یہی ہوتا ہے کہ ان کی معاشی آزادی گروی رکھی جاتی ہے اور اس ایک آزادی کے کھوجانے سے دوسری تمام آزادیاں بھی محدود ہوتی چلی جاتی ہیں۔ پھر ان کے آٹے دال کے بھائو بھی قرض دینے والے ہی طے کرتے ہیں۔ پاکستان اس افسوسناک دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ حکومت کے پاس ماضی کی طرح اس کا آسان حل نوٹ چھاپنا ہے۔ نوٹ چھاپنے سے افراط زر اور اس سے وابستہ کئی نئے معاشی مسائل جنم لیتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی نوٹ چھاپنے کا روایتی طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ اس کے باجود مہنگائی کنٹرول سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ انسان کی بنیادی اشیائے ضرورت قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ بازاروں میں کوئی حکومت، انتظامیہ، پرائس کنٹرول کمیٹی سمیت سسٹم نام کی کوئی چیز موجود نہیں اگر وہاں کسی مخلوق کا راج ہے تو وہ مہنگائی کا جن ہے جو چہار سو دندناتا پھر رہا ہے۔ یہ جن ہر نئی صبح ایک نئے انداز میں نئے اور بڑھی ہوئی قیمتوں کے ساتھ نمودار ہو کر انسانوں کا مذاق اُڑاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی ایک ٹویٹ میں مہنگائی کا نوٹس لے کر عملی اقدامات اُٹھانے کا مژدہ سنایا ہے۔ نوٹس لینے کی اصطلاح ہمارے ہاں بہت سی اصطلاحات کی طرح اپنی معنویت کھوچکی ہے۔ نوٹس سے مراد اگر ٹائیگر فورس کے ذریعے قیمتوں پر نظر رکھنا ہے تو ٹائیگر فورس والے کسی معاشرے کے لوگ ہیں۔ وہ کسی اخلاقی تربیب کی بھٹی سے ہو کر نہیں گزرے۔ ان میں کتنے ہی ٹائیگرز کے عزیز واقارب ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی کے اس کھیل کا حصہ ہوں گے۔ اس کے باوجود بہتری کی امید رکھی جا سکتی ہے۔
حکومت نے چینی اور گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس سے ملکی ذخیرہ اندوزوں کو کچھ سبق تو ملے گا مگر اس کا عام آدمی کو کیا فائدہ ہوگا، کیا آٹے اور چینی کے نرخ گر جائیں گے؟۔ یوں تو پاکستانی عوام مہنگائی کے حوالے سے حد درجہ صابر وشاکر ہونے کا عالمی ریکارڈ رکھتے ہیں۔ یہ کبھی مہنگائی کی وجہ سے سڑکوں پر نہیں نکلتے حالانکہ دنیا میں تو مہنگائی میں غیر معمولی اضافے کے باعث انقلاب برپا ہوتے ہیں۔ تخت اُلٹ جاتے ہیں اور سڑکیں اور گلیاں تصادم آرائی کا مرکز بن جاتی ہیں۔ حکومتوں کے لیے امن وامان کی صورت حال کو کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور کئی حکومتیں احتجاج کے سیلاب میں بہہ جاتی ہیں۔ پاکستان کے امن پسند اور قانون پسند لوگ اس معاملے میں زبانی شکوئوں سے آگے نہیں جاتے۔ شاید انہیں پہلے ہی اپنے احتجاج کے اکارت جانے کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کے باجود اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم احتجاجی مظاہروں اور جلسوں کی صورت میں رنگ محفل جمانے کا پروگرام بنا رہا ہے۔ پی ڈی ایم کے پاس بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سوا عوامی دلچسپی کی کوئی بات نہیں۔ ووٹ کو عزت دینے کی باتیں اور نعرے لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ ہیں اور عام آدمی کے سر کے اوپر سے گزرجاتی ہیں۔ ووٹ کی پہلی بے توقیری ووٹ لینے والے یوں کرتے ہیں کہ روپے پیسے، ذات برادری، مسلک سمیت کسی بھی نام پر ووٹ لے کر جیتنے والے وفاقی اور صوبائی مراکز میں جا کر ڈیرے جماتے ہیں اور پانچ سال تک ووٹر کو کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ اس کے باوجود اپوزیشن اپنے احتجاج کو عوامی مفاد اور دلچسپی کا رنگ بھرنے کے لیے مہنگائی کو احتجاجی ایجنڈے کا مرکزی نکتہ بنانے کی حکمت عملی اپنائے گی۔ یوں حکومت کی اصل اپوزیشن گیارہ جماعتیں نہیں مہنگائی کا جن ہے۔ اس جن کو بوتل میں بند کرنے کا حکومت کے پاس کوئی فوری نسخہ نظر نہیں آتا اور ایسے میں جبکہ اس جن کی ڈوریں بھی آئی ایم ایف کے ہاتھ میں ہوں حکومت کی مشکل مزید بڑھ جاتی ہے۔ پی ڈی ایم کا احتجاج قابل علاج ہے مگر مہنگائی کا جن لاعلاج ہو کر رہ گیا ہے۔ اس جن کے وجود کا اعتراف اور احساس مسئلے کا حل نہیں کیونکہ مسئلہ تو اپنی جگہ موجود ہے۔ حکومت کو اس مسئلے سے نمٹنے کی فوری تدبیر کرنا ہوگی۔