ستتر جیسے حالات نہیں،مارشل لا نہیں لگے گا‘اپوزیشن کی تحریک ذاتی مفادات کے لیے ہے

208

(رپورٹ: قاضی جاوید)اپوزیشن کی تحریک ملک اور عوام کی بہتری کے لیے نہیں اقتدار پر قبضے کی جنگ ہے ۔ حزب اختلاف سے حکومت کے خلاف کیا بڑی تحریک کا بر پا ہو نا نا ممکن ہے ۔امیر جماعت ِ اسلا می سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ملک میں ایک دن بھی دستورِ پاکستان پر عمل نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے ملک کو ہمیشہ بڑے بڑے بحرانوں کا سامنا رہا ہے ۔ان کا ” حزب ِاختلاف کی محاذآرائی سے ملک ایک بار پھر 1977ء جیسے حالات کی طرف بڑھ رہا ہیـ” کے بارے میں کہنا ہے کہ ملک کے عوام کو ان بحرانو ں کو نہ صر ف برداشت کرنا پڑا ہے بلکہ آج بھی عوام ہی کو مہنگائی بے روزگا ری کا سامنا ہے۔ 2 برسوں کے دوران اپوزیشن نے ہر غلط کام میں عمران کی حکومت کا ساتھ دیا ہے ۔اصل حقیقت یہ ہے یہی اپوزیشن دو برسوں سے عمران خان کی حکومت کے ہر فیصلے میں ان کے ساتھ رہی ہے ۔تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ چند دن قبل اپوزیشن نے ایف اے ٹی ایف کے مسئلے پر حکومت کا سا تھ دیا ہے اور اب یہ حکومت کے خلا ف تحریک کی باتیں کر رہے ہیں۔اپوزیشن کی تحریک کا وہ ساتھ دے جو کبھی خود تحریک میں نہیں رہا ہے ،جماعتِ اسلامی مسلسل تحریک میں مصروف ہے اور ہمیشہ ملک اور عوام کی بہتری کے لیے کام کرتی رہے گی ۔عوام کی نظریں جماعت ِ اسلامی کی طرف لگی ہو ئی ہیں۔بد دیانت قیادت نہ ملک کے لیے درست ہے اور نہ ہی عوام کو کچھ دے سکے گی ۔انھو ں نے کہا کہ عوام کی بھلائی کی کسی کو فکر نہیںہے اپوزیشن کی تحریک صرف ذاتی مفادات کے لیے ہے اور اسی لیے عوام کو ان تحریکوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔انھوں نے کہا 1977ء اور آج کے دور میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے لیکن اگر کچھ تبدیل نہیں ہو ا تو یہ کہ عوام کی غربت میں کمی نہیں ہو سکی ۔ عوام کوبحران کا سامنا ہے۔ مسلم لیگ کے سابق سیکر ٹری جنرل ضیا عباس کا حکومت اور حزب ِاختلاف کی محاذآرائی سے ملک ایک بار پھر 1977ء جیسے حالات کی طرف بڑھ رہا ہے کے بارے میں کہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد پاکستان نیشنل الائنس ( پی این اے) کی تحریک زور پکڑ گئی لیکن اُس وقت جماعت ِ اسلا می “پی این اے” کی تحریک کا حصہ تھی اور ذوالفقار علی بھٹو نے از خود انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو درست تسلیم کرلیا تھا ۔ جماعت ِ اسلامی کے پاس اسٹریٹ پاور بھی تھی اور اور اس کو تحریک چلانے کا مکمل طریقہ کا ر کا علم تھا۔ اس کے کارکنان نے پورے ملک میں تحریک کی کامیابی میں اہم کر دار ادا کیا لیکن جماعت ِ اسلامی کو اقتدار تک لے جانے کے بجا ئے ” عالمی ساہوکاروں “نے مارشل لا کا ساتھ دیا ۔ امریکا بھٹو سے ناراض تھا اور جنرل ضیا الحق کو موقع ملا اور انھو ں نے اقتدار پر قبضہ کرکے مارشل لا نافذ کردیا۔ بھٹو کو دار پر چڑھایا گیاجس کے بعد سیاسی کارکنوں کا کہیں پتا نہیں تھا۔ جنرل مشرف کے بعد قائم ہو نے والی حکومت 2008-15 ء کے دوران پہلے آصف علی زرداری اورپھر میاں نواز شریف کواقتدار ملا اور اب عمران خان کا دور بھی مفاہمت کا دور کہا جاتا ہے گویا مل کر اقتدار میں ریاست کو بھی انجوائے کرنے کا موقع دیا جارہا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ ملک میں 12برسو ںسے جمہوریت کو صرف فوج چلا رہی ہے ، لیکن اگر اب اپوزیشن کسی طرح 1977ء کے حالات پیدا کر نے میں کامیاب ہو گئی اور” ن”لیگ و فضل الرحمن کے ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی مستعفی ہو گئے تو حالات ایسے ہو جائیں گے کہ ملک میں مارشل لا لگا دیا جائے۔ ضیا عباس کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت پی پی پی میں تھے اورانھو ں نے بھٹو سے کہا تھا کہ ایک سال قبل انتخابات نہ کرائیں لیکن بھٹو نے ایسا نہیں کیا اور اقتدار سے محروم ہو گئے۔ پاکستا ن پیپلز پارٹی کے رہنمااین ڈی خان کا کہنا ہے ملک میںحالات کو 1977ء سے بدتر بنا دیا گیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے ملک میں مارشل لاء لگا دیا جائے ۔ ان پو رے حالات کے سب سے بڑے ذمے دار صرف اور صرف سیاستدان ہیں جن کی نااہلی کی وجہ سے ملک میں پہلے بھی سیاسی نظام کو نقصان پہنچا اور آئندہ بھی خدشات ہیں۔ملک کے عوام کے ووٹ کو جب بھی تباہ کیا جائے گا حکومتوں کے حالات میں بہتری کے بجائے خرابی پیدا ہوگی اور عوام کو کچھ بھی نہیں ملے گا ۔ 1977ء کے سیاسی حالات عمران حکومت پیدا کر رہی ہے ریاستی طاقت کو استعمال کر کے جب بھی عوامی حکومت کے بجائے غیر منتخب حکو مت کو خفیہ ہاتھوں نے سپورٹ کیا تو ملک میں تباہ کن صورتحال پیدا ہو جاتی ہے ۔ اس وقت ملک پر عوامی حکومت کے بجائے خفیہ ہاتھوںکی حکومت ہے اور یہ حکومت عوام کے مسائل حل کر نے میں مکمل طور پر ناکام ہے اور اس کی وجہ سے عوام اور حکمرانوں کے درمیان دوریوں میں اضافہ ہو تا جارہا ہے ۔” 1977ء “کی وجوہات وہی ہیں جو آج پاکستان میں نظر آرہی ہیں۔ ملک میں اسٹیبلشمنٹ عوام کے ووٹ کو اگر ذاتی مفادات کے لیے کسی اور کے حوالے کر دے تو اس کامقصد یہ کہ عوام کی رائے کو کچلا جا رہا ہے ۔ آج ایک مرتبہ پھر ایسا ہی کچھ ہو رہا ہے حکومت ایک جانب یہ کہہ رہی ہے ملک میں کوئی سیاسی بحران نہیں ہے اور دوسری جانب اپوزیشن کے قانونی اور دستوری جلسوں کو بلا جواز بتا رہی ہے۔ انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ عمران خان کی حکومت نے پو رے ملک کے حالات کو خراب کیا ہے اور اس سے ان کی نااہلی ثابت ہو گئی ہے ۔ایک سوال کے جواب میں این ڈی خان نے کہا کہ دنیا کے ہر ملک میں فوج اور ایجنسی کا کر دار اہم ہو تا ہے لیکن ان کا کردار ملک کی بقا اور سلامتی تک محدود رہتا ہے۔اس وقت ملک کی سرحدوں کو چاروں اطراف سیجنگوںکے خدشات کا سامنا ہے اور افواج ِپاکستان کی سرحدوں میں مصروفیا ت بہت زیادہ ہیں لیکن عمران خان ان کو ملک میں الجھائے رکھتے ہیں جس کی وجہ سے افواج ِ پاکستان کو بہت مشکل کا سامنا ہے ۔افواج پاکستان ملک کا دفاع کر نے میں اپنا بھر پو ر کر دار ادا کر رہی ہے ۔یہ با ت ٹھیک نہیں اپوزیشن ملک میں سیاسی بحران پید اکر رہی ہے اور اس کی وجہ سے افواج ِ پاکستان کو دشواریوں کا سامنا ہے۔ عمران خان کو حالا ت کی بہتر ی کے لیے ملک میںسیاسی قائدین سے مل کر کا م کر چاہیے تھا لیکن اس نے ایسا کر نے کے بجائے ملک کو تبا ہی اور عوام کو بے روزگاری ، مہنگائی کے حوالے کر دیا ہے۔ بزرگ سیاسی رہنما نصرت مرزا نے کہا کہ 1977ء کے جیسے حالات نظر نہیں آرہے ہیں۔ 1977ء کی تحریک کا مرکزی خیال” نظام مصطفی”کا ملک میں نفاذتھاجس پر پوری قوم کا اتفاق تھا اور عوام آج بھی ایسی کسی تحریک پر کامیابی حاصل کر سکتے ہیں لیکن موجودہ تحریک شروع ہو نے سے پہلے ہی ختم ہو نے کے در پے ہے اور ملک میں عوامی سطح پر کسی تحریک کے بپا ہو نے کا کو ئی امکا ن نہیں ہے ۔مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے درمیان بہت فاصلہ ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان فاصلوں میں مزید اضافے کا امکا ن موجود ہے پی پی پی اور مسلم لیگ ن کا ساتھ چلنا ممکن ہی نہیں ہے ۔پی پی پی کے آصف علی زرداری کو نواز شریف نے متعدد مرتبہ دھوکا دیا ہے اور اب وہ نواز شریف کے دھوکے میں نہیں آئیں گے ۔پی پی پی اور ن لیگ ملک اور جمہوریت اور عوام کے لیے نہیں اپنے ذاتی مفادات کے لیے تحریک کا شور مچا رہے ہیںاور مچاتی رہے گی۔ اپوزیشن اپنے مالی مفادات میں اضافہ کر نے لیے حکومت کو دھمکا نے میں مصروف ہے لیکن اس کو کامیابی نہیں ملے گی ۔یہا ں یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے اس نام نہاد تحریک میں جماعت ِ اسلامی شامل نہیں ہے اس کی بنیا دی وجہ یہ ہے کہ اس تحریک میں ذاتی مفادات کو اہمیت حاصل ہے۔