عادل ِ اعظم کی ہدایت کے مطابق جوڈیشنل اکیڈمی ججوں کو وکلا سائلین سے بہتر رویہ اختیار کرنے کی تربیت دے گی۔ اور انہیں یہ باور کرائے گی کہ وکلا سائلین سے حسن سلوک کا رویہ رکھیں۔ کیونکہ عدلیہ کا احترام بحال رکھنے کے لیے جج صاحب کا احسن رویہ بہت ضروری ہے۔ اگر ہم وکلا کے رویے کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ حسن سلوک اور احسن رویے کی ضرورت صرف وکلا کو ہے۔ جج صاحبان انتہائی خاموشی سے وکلا کے دلائل سننے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ کیونکہ وکلا کے ہاتھ قانون سے بھی زیادہ لمبے ہیں۔ اور یہ ہاتھ کسی بھی جج کے گریبان تک با آسانی پہنچ سکتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ یہ ہاتھ کسی کا بھی گریبان چاک کر سکتے ہیں۔
عادل اعظم کا ارشاد گرامی ہے کہ ججوں کی کمی کے باعث انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہوتی ہے۔ اس وقت ماتحت عدالتوں میں 150ججوں کی کمی ہے۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے ججوں کی بھرتی بہت ضروری ہے۔ 700 وکلا کی درخواستیں منظور کر لی گئی ہیں جن کا
عنقریب انٹرویو لیا جائے گا۔ وکلا کی کارکردگی دیکھتے ہوئے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ 700 وکلا میں سے 150کا انتخاب بہت ہی مشکل ہے کیونکہ پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے کہ وکلا انٹرویو میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ انٹرویو میں ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جس طرح MBBS کرنے والے شخص کو اچھا ڈاکٹر بننے کے لیے دیگر کورسز بھی کرنا پڑتے ہیں۔ اسی طرح LLB کرنے کے بعد ماہر و قابل وکیل بننے کے لیے قانون سے متعلق دیگر کورسز بھی ضروری ہوتے ہیں۔ بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے ہاں LLBکے بعد دیوانی اور فوجداری کے کورس نہیں کروائے جاتے۔ اور انٹرویو میں وکلا سے ایسے ہی سوالات کیے
جاتے ہیں جن میں ان کی مہارت صفر ہوتی۔ جج کی مسند پر فائز ہونے کے لیے وکیل کا دیوانی اور فوجداری قانون میں مہارت بہت ضروری ہے۔
ہم اس واقع کے چشم دید گواہ ہیں کہ جج صاحب نے ایک مقدمہ کا فیصلہ سنایا تو جس وکیل کے حق میں فیصلہ ہوا اس نے جج صاحب سے کہا کہ حکم امتناع کی چھوٹی سی پیشی دے دی جائے۔ یہ سن کر وہاں موجود سینئر وکلا ہی نہیں ہم بھی حیران رہ گئے۔ جج صاحب نے اپنا سر پکڑ لیا اور کہا کہ جائو اپنے سینئر کو فیصلے کے بارے میں بتائو۔ کیونکہ تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آئے گی کہ جب مقدمے کا فیصلہ تمہارے حق میں ہو چکا ہے۔ تو فریق ثانی کا حکم امتناع ختم ہو چکا ہے اور ہم یہ سوچ کر پریشان ہو گئے کہ اگر بدنصیبی سے یہ وکیل کسی طرح چیف جسٹس آف پاکستان بن گیا تو پاکستان کا کیا بنے گا۔
ہم ایک مدت سے انہی کالموں میں گزارش کر رہے ہیں کہ نظام عدل کے کرتا دھرتا ہاتھ گھماکر ناک پکڑنے کا رویہ ترک کر دیں تو ججوں کی کمی کے باوجود انصاف کی جلد فراہمی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ خدا جانے نظامِ عدل چلانے والے یہ بات کیوں نہیں سمجھتے کہ جب تک جعلی مقدمات کی سماعت ہوتی رہے گی۔ اور اپیل در اپیل کا واہیات سلسلہ چلتا رہے گا۔ عدالتوں میں مقدمات کا انبار لگتا رہے گا۔
یہ کوئی ذی وقار بات نہیں کہ جب بھی انصاف میں تاخیر کا سوال اٹھایا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ججوں کی کمی ہے۔ اس لیے جلد انصاف کی فراہمی ممکن نہیں حالانکہ جعلی مقدما ت کی سماعت اور پیروی پر پابندی لگا دی جائے تو اس کمی کو بڑی حد تک ختم کیاجا سکتا ہے۔ قابل ِ غور بات یہ بھی ہے کہ جن مقدمات کو عدالتیں عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج کر دیتی ہیں ان کی پیروی اور سماعت کے معاملے پر بھی غور کیا جائے اور مناسب اقدامات کیے جائیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ دنیا کی کسی بھی عدالت میں ثبوت کے بغیر مقدمات کی سماعت نہیں ہوتی مگر ہمارے ہاں جس کی جیب میں وکیل کی فیس کے پیسے ہیں وہ کسی پر بھی مقدمہ دائر کر سکتا ہے۔ ہماری ہر عدالت میں 22-A
کے مقدمات کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یعنی کسی کے خلاف بھی درخواست دے دی جائے تو عدالت اسے طلب کر لیتی ہے۔ بھارت میں جب بھی اس قسم کی کوئی درخواست پیش کی جاتی ہے۔ تو متعلقہ عدالت سماعت سے پہلے اس کی تحقیق کرتی ہے کہ درخواست جھوٹی ہے کہ سچی۔ اگر درخواست درست ہو تو مقدمہ دائر کر لیا جاتا ہے۔ بصورت دیگر درخواست کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ایسے درخواست گزار کو سر پر بٹھا لیا جاتا ہے۔ اور فریق ِ ثانی کو طلب کر لیا جاتا ہے۔ جو اس کی بدنامی اور رسوائی کا سبب بنتا ہے اور معاشرہ اس سے نظریں پھیر لیتا ہے۔ اس کی نیک نامی اور شرافت سب کچھ خاک میں مل جاتی ہے۔ مگر ہماری عدالتوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ فریق ثانی بے گناہ ہے یا گناہ گار ہے۔ وہ صرف مقدمے کی سماعت کے دوران پیشی پیشی کا دردناک اور توہین امیز رویہ اختیار کرتی ہے۔ شاید یہ ہی ہماری عدلیہ کی ذمے داری ہے۔