گزشتہ ہفتے امریکا کے وفاقی سراغرساں ادارے ایف بی آئی نے 23 سے 44 برس کے چھ افراد کو گرفتار کرلیا جو ریاست مشی گن کی گورنر گریشن وٹمر کو اغوا کرکے ریاستی حکومت پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ ابتدائی پوچھ گچھ کے بعد دائیں بازو کی غیر معروف انتہا پسند ملیشیائول ویرائین واچ مین کے مزید سات افراد کو حراست میں لیا گیا۔ ان سفید فام، راسخ العقیدہ مسیحی افراد کو ملک کے تیزی سے بائیں جانب جھکائو پر تشویش ہے۔ ایف بی آئی کا خیال ہے کہ سفید فام انتہا پسندوں کے اس منظم گروہ کے زیر زمین سیل سارے امریکا میں ہیں۔ سی این این کے مطابق دو گرفتار شدگان امریکی میرین کے سابق سپاہی ہیں۔
اس گروہ کو کورونا وائرس سے نبٹنے کے لیے لاک ڈاؤن پر سخت اعتراض ہے۔ ویرائین واچ مین کے مطابق یہ پابندیاں ان شہری آزادیوں کو محدود کرنے کا باعث ہیں جن کو امریکی دستور نے غیر مشروط تحفظ فراہم کیا ہے۔ اسی کو بنیاد بناکر عدالت میں درخواست بھی دی گئی تھی جس پر مشی گن کی عدالت عظمیٰ نے لاک ڈاؤن سے متعلق گورنر کے بعض احکامات کو آئین سے متصادم قرار دیکر معطل کردیا تھا۔ ایف بی آئی کے مطابق، گرفتار شدگان کا کہنا ہے کہ گورنر کے پاس لامحدود اختیارات ہیں اور احتساب و قانونی مواخذے کا کوئی نظام نہیں۔ یہ آمرانہ طرز حکومت امریکی اقدار کے منافی ہے جس کے لیے گورنر کی ہر قیمت پر معزولی ضروری ہے۔
ایف بی آئی کے جمع کردہ بیانِ حلفی کے مطابق یہ گروپ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے جہاں امریکا کے منشورِ شہری حقوق یا بل آف رائٹس (Bill of Rights) پر اس کی روح کے مطابق عمل ہوتا ہو۔ امریکی آئین کی پہلی دس ترامیم پر مشتمل اس بل میں اپنی مرضی کے مذہبی عقیدے، آزادی اظہار رائے، نقل و حرکت کی غیر مشروط آزادی، اسلحہ رکھنے اور اس کی نمائش کے حق، فوجیوں کے بلااجازت نجی گھروں میں گھسنے کی ممانعت، شہریوں کی جاسوسی و بلاضرورت تلاشی پر پابندی، بے لاگ و شفاف انصاف اور مقدمات کی غیر جانبدار جیوری کی شکل میں کھلی سماعت کی ضمانت دی گئی ہے۔
وفاقی سراغرساں ادارے کا کہنا ہے کہ اس گروپ نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے پرامن کاوشوں سے لیکر متشدد اقدامات اختیار کرنے پر غور کیا جن میں ’’ظالموں‘‘ کے قتل اور گورنر کا اغوا شامل تھا۔ اہداف کے حصول کے لیے مشی گن کے ریاستی دارالحکومت لانسنگ میں اقتدار واختیار کے مرکز، کیپٹل بلڈنگ پر حملے کا منصوبہ بنایا گیا تاکہ امریکی آئین کے خلاف قانون سازی کرنے والی ریاستی مقننہ کو منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے۔ ساتھ ہی سرکاری رہائش گاہ سے گورنر صاحبہ کو گرفتار کیا جانا تھا تاکہ ان پر بغاوت کا مقدمہ چلایا جاسکے۔ گورنر وٹمر کی گرفتاری کو یقینی بنانے کے لیے ٹھیک اسی وقت ایک دوسری ٹیم کا گورنر کے نجی گھر پر چھاپا ’’انقلابی‘‘ حکمت عملی کا حصہ تھا۔ ساتھ ہی طے ہوا کہ اگر گورنر کی گرفتاری کے وقت ان کے شریک حیات نے مزاحمت کی تو شوہر نامدار کو بھی ٹھکانے لگادیا جائے۔ آپریشن کی تمام تفصیلات بہت باریکی سے طے کی گئی تھیں جن میں دارالحکومت آنے والی شاہراہ پر قائم مرکزی پل کو دھماکے سے اڑانا بھی شامل تھا تاکہ پولیس اور انسداد دہشت گردی کے اہلکار مدد کو نہ آسکیں۔
مشی گن کے ساتھ کئی دوسری ریاستوں کی سیاسی و نظریاتی تطہیر کا عزم بھی کیا گیا جہاں امریکی آئین کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ ان تمام ریاستوں میں ڈیموکرٹک پارٹی کی حکومت ہے۔ ان اقدامات پر 3 نومبر سے پہلے عملدرآمد ہونا تھا تاکہ عام انتخابات میں صدر ٹرمپ کی کامیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔ ایف بی آئی کا کہنا تھا کہ مشی گن آپریشن کے لیے گرفتار ہونے والے ’’سرغنوں‘‘ نے نہ صرف عسکری تربیت حاصل کی بلکہ انہوں نے اگست اور ستمبر میں دو دفعہ آزمائشی مشق یا ریہرسل بھی کی تھی۔ چار گرفتار شدگان نے اسلحے کی خریداری کے لیے رقم فراہم کی تھی۔ ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ انہوں نے منصوبے کو طشت از بام کرنے کے لیے، خفیہ ایجنٹ اور مخبروں کو استعمال کیا۔
گورنر وٹمر نے صدر ٹرمپ کے نفرت انگیر بیانیے کو ملک میں انتہا پسندی کے فروغ کی بنیادی وجہ قرار دیا ہے۔ امریکی صدر گونر وٹمر کے خلاف سخت زبان استعمال کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنے حامیوں سے اپیل کی تھی کہ مشی گن کو بائیں بازو کی گرفت سے آزاد کرایا جائے جس کے لیے انہوں نے Liberate Michigan کے الفاظ استعمال کیے۔ مبینہ دہشت گردوں نے بھی اپنے آپریشن کو لبریٹ مشی گن کا نام دیا تھا۔ گرفتاریوں کے بعد اپنی وضاحتی بیان میں صدر ٹرمپ نے انتہا پسندی کی مذمت کرتے ہوئے اپنے اس موقف کو دہرایا کہ کورونا وائرس کے خلاف گورنر وٹمر کے اقدامات غیر موثر ہیں اور محترمہ اپنی ریاست میں اس وبا کے غیر معمولی پھیلائو کی ذمے دار ہیں۔
بلاشبہ یہ ایک بھیانک منصوبہ تھا لیکن میڈیا پر وہ سنسنی نظر نہیں آرہی جس کی توقع کی جارہی تھی جس کی ایک وجہ تو اس کا سیاسی پہلو ہے۔ عام لوگ اسے جماعتی عینک پہن کر دیکھ رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے حامیوں کو یہ بائیں بازو کا پروپیگنڈا نظر آرہا ہے تو دوسری طرف ڈیموکریٹک پارٹی اسے اپنی انتخابی مہم کے لیے استعمال کررہی ہے جسے سیاسی اصطلاح میں Political Mileage کہتے ہیں۔ حکومتی مشنری کی عدم دلچسپی کی وجہ کچھ اور ہے۔
اپنی سنگینی کے اعتبار سے یہ کسی بھی طرح 9/11سے کم نہیں لیکن 2001 کی واردات میں مبینہ طور پر مسلمان ملوث تھے چنانچہ اس واقعے نے بحراوقیانوس سے بحرالکاہل اور جنوب میں خلیج میکسیکو سے شمال میں کینیڈا کی سرحدوں تک امریکی سرزمین کو مسلمانوں کے لیے جہنم زار بنادیا تھا۔ لاتعداد نوجوان عقوبت خانوں کی زینت بنے۔ درجنوں فلاحی ادارے مقفل کردیے گئے اور سیکڑوں مساجد آج تک سراغرساں اداروں کی خوردبین کے نیچے ہیں۔
اس ضمن میں ہفتے کو سی این این سے باتیں کرتے ہوئے وزارت اندرونی سلامتی (Homeland Security) کے سابق چیف آف اسٹاف مائلز ٹیلر نے بتایا کہ قومی سلامتی کی نشستوں میں سراغ رساں اداروں کے اعلیٰ افسران نے کئی بار نسل پرست دہشت گردی کو ملکی سلامتی اور امن و امان کے لیے خطرہ قرار دیا لیکن صدر ٹرمپ نے اسے غیر حقیقت پسندانہ مفروضہ قرار دیتے ہوئے اپنی سراغرساں ٹیم کو ’مسلم دہشت گردوں‘ پر نظر رکھنے کی ہدایت کی۔