ترکی کا خطے میں بڑھتا ہوا اثر ورسوخ

444

مشرقی بحیرہ روم کے تمام ملک اپنے ساحلوں سے 200 کلومیٹر تک اپنے اسپیشل اکنامک زون کے دعویدار ہیں اور ایک دوسرے پر اپنے زون میں مداخلت کا الزام لگاتے آئے ہیں۔ اس تناظر میں جہاںمصر، غزہ، شام، لبنان اور قبرص کے ساحلوں کے قریب سمندر میں تیل اور گیس کے نئے ذخائر کی دریافت نے‘ پرانے اور حل طلب مسائل کو نئی جہت دی ہے وہاں اس نئی صورتحال میں ترکی اس خطے میں ایک اہم کھلاڑی بن کر اُبھرا ہے۔ اس صورتحال کو آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جاری جنگ نے اور بھی دھماکا خیز بنا دیا ہے جس میں ترکی کھل کر آذربائیجان کی پشت پر نہ صرف کھڑا ہے بلکہ اس کی مکمل مدد بھی کر رہاہے۔ واضح رہے کہ شام میں اپنے پتے کامیابی سے کھیلنے کے بعد ترکی کچھ عرصے سے لیبیا میں بھی اہم کردارادا کررہا ہے۔ بحیرہ ایجیئن، اسپیشل اکنامک زونز، قبرص، شام اور لیبیا میں ترکی ایک الگ ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جس پر مہر تصدیق جہاں آرمینیا کے خلاف آذربائیجان کی حمایت نے ثبت کردی ہے وہاں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے گزشتہ دنوں دیے جانے والے اس بیان نے بھی ترکی کے مستقبل کے عزائم کی وضاحت کردی ہے جس میں انہوں نے ماضی میں خلافت عثمانیہ کے زیر قبضہ علاقوں کو واپس ترکی کے زیر اثر لانے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ رجب طیب اردوان کے اسی اعلان کا ردعمل ہے جس نے سعودی حکومت کو سعودی عرب میں ترک اشیاء کے بائیکاٹ اور ترکی کے ساتھ تجارتی روابط ختم کرنے کے فیصلے پر مجبور کیا ہے۔
دوسری جانب فلسطین میں حماس اور مصر میں اخوان المسلمین کی غیر مشروط حمایت سے بھی مصر، اسرائیل، عرب امارات اور سعودی عرب میں ترکی کے خلاف اشتعال میں اضافہ ہورہا ہے، کچھ یورپی ممالک بھی بحیرہ روم میں ترکی کے عزائم سے خائف ہیں اور فرانس کی قیادت میں سات ملکوں کا حالیہ اجلاس اس کا ثبوت ہے۔ تیسری جانب قفقاز کے خطے میں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جاری گھمسان کی جنگ میں ترکی کوئی لاگ لپیٹ رکھے بغیر جس کھلے انداز میں آرمینیا کے خلاف آذربائیجان کا حمایتی بن کر سامنے آیا ہے اس نے بھی اگر ایک طرف آرمینیا کے اتحادی روس کی پریشانی میں اضافہ کردیا ہے تو دوسری جانب ترکی کا یہ جارحانہ رویہ خود اس کے ناٹو کے اتحادیوں کو بھی ہضم نہیں ہورہا ہے۔ دراصل جب سے ترک صدر رجب طیب اردوان یورپی یونین کی رکنیت سے مایوس ہوئے ہیں ان کی یہ مایوسی اور جھنجلاہٹ ان کے رویے اور ان کی پالیسیوں کی واضح عکاسی کرتے ہیں۔ طیب اردوان کو یقین ہوگیا ہے کہ ترکی چاہے جتنا بھی سیکولر ہوجائے اور اس کا آئین چاہے جتنا بھی مذہب بیزار ہوجائے یورپی یونین اس کو اپنی رکنیت دینے کے لیے آمادہ نہیں ہوگا جس کی بنیادی وجہ ترکی کا مسلم اکثریتی ملک ہونا ہے۔ ترکی مایوسی کے اس عالم میں اپنے ہمسایہ یونان، قبرص، شام، عراق، مصر، فرانس اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات بگاڑ چکا ہے جبکہ سعودی عرب اور عرب امارات کے ساتھ اس کے تعلقات دشمنی کی حد تک کشیدہ ہوچکے ہیں۔ ترکی کے امریکا کے ساتھ بھی تعلقات پہلے جیسے پرجوش نہیں رہے، روس کے ساتھ کہیں شراکت داری ہے تو کہیں رقابت۔ اس کے باوجود ترکی خطے میں اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے پتے کامیابی سے کھیل رہا ہے۔
ناٹو کے جنوب میں ترکی کا محل وقوع اسٹرٹیجک اہمیت کا حامل ہے، ترکی میں امریکی فوجی اڈہ ہے، شام اور عرب ملکوں سے لاکھوں تارکین وطن کو ترکی جب چاہے یورپ میں دھکیل سکتا ہے اور ان سارے پتوں کو طیب اردوان بہت ہوشیاری سے استعمال کر رہے ہیں۔ ترکی کے ان عزائم سے خائف یورپی ممالک اگر ایک جانب خود عربوں کی طرف دیکھ رہے ہیں تو دوسری طرف عرب خود بھی ترکی کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھ رہے ہیں لہٰذا ان دنوں عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ دوستی اور محبت کی جو پینگیں بڑھائی جارہی ہیں ان کا مقصد ایران کے بجائے ترکی کا مقابلہ کرنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ترکی کے خطرے کا ادراک اسرائیل اور عربوں کو بہت پہلے سے ہے جس کا ثبوت جنوری 2019 میں اسرائیل، سعودی عرب، مصر اور
عرب امارات کے حکام کی ایک خفیہ ملاقات کو قراردیا جاتا ہے جس میں موساد کے چیف نے عربوں کو باور کرایا تھا کہ ایران کمزور پڑ چکا ہے، اصل خطرہ ترکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس خفیہ ملاقات میں شریک ممالک نے ترکی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے چار اقدامات پر اتفاق بھی کیا تھا۔ خطے میں ترکی کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کے متعلق مبصرین کا کہنا ہے کہ تمام تر مخالفت کے باوجود ترکی پہلے سے مضبوط ہوا ہے، ترکی نے خود انحصاری پر توجہ دے کر قومی مفاد میں پالیسیاں بنائیں، شام اور لیبیا میں اگر ترکی اور روس آمنے سامنے ہیں تو بحیرہ روم میں دونوں کے مفادات سانجھے ہیں اور دونوں برابری کی بنیاد پر بات کرتے ہیں۔ اسی طرح جب امریکا نے ترکی کو ڈرونز اور جدید میزائل سسٹم دینے سے انکار کیا تو ترکی نے اپنے ڈرونز خود بنائے جب کہ میزائل سسٹم امریکی اعتراضات کے باوجود روس سے خریدا۔ اس کے ساتھ ساتھ ترک کمپنیاں سمندر میں گیس تلاش کرنے اور اسے ملکی مارکیٹ میں سپلائی کرنے کے قابل بھی ہیں۔ جب کہ دوسری جانب اسرائیل نے قومی سا لمیت کے لیے خطرہ قرار دیے گئے ملکوں کی فہرست میں ترکی کو سرفہرست رکھا ہے۔ لہٰذا اس تمام تر صورتحال کے تناظر میں یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ مشرق اور مغرب کے سنگم پر واقع خلافت عثمانیہ کا جانشین جدید ترکی نہ صرف ہر طرح کے علاقائی خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار ہے بلکہ وہ آگے بڑھ کر یورپ، ایشیا اور افریقا میں پھیلے ہوئے 56اسلامی ممالک کی قیادت کی اہلیت وصلاحیت بھی رکھتا ہے۔