نقطہ آغاز

187

ویسے تو جماعت اسلامی اپنی بنا کے اول روز سے خلق خدا کی خدمت کا فریضہ انجام دیتی آرہی ہے۔ چاہے وہ قیام پاکستان کے وقت لٹے پٹے مہاجرین کی آباد کاری اور خیمہ بستیوں میں ان مہاجرین کی ضروریات کا خیال رکھنا جو اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ اس نئی ریاست میں آبسے تھے۔ قدرتی آفات سے متاثرہ آبادیاں ہوں تو وہاں سب سے پہلے جماعت اسلامی ہوتی ہے۔ کراچی جو ایک چھوٹی سی ساحلی آبادی تھی بڑھتے بڑھتے پاکستان کا سب سے بڑا شہر بن گیا اس شہر کی یہ خوبی ہے کہ اس نے ہر آنے والے کو چاہے وہ پاکستان کے کسی حصّے سے معاش کی تلاش میں آیا اس شہر نے اس کے لیے اپنے دامن کو کشادہ کیا یہاں امن و محبت کی فضا تھی ہر زبان بولنے والا بستا تھا۔ ایک عرصے تک تو اس شہر کے ادارے بغیر کسی شہری حکومت کے اپنے کام کرتے رہے اور اس شہر میں ترقی کا عمل جاری رہا اور اس کی آبادی تیزی سے بڑھتی رہی۔ جماعت اسلامی نے اس شہر میں عوام کی خدمت کے ذریعے دعوت دین کا فریضہ بھی انجام دیا اس شہر کے باسی اول روز ہی سے اسلام کے لیے نہایت نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ مئیر عبدالستار افغانی جن کا تعلق جماعت اسلامی تھا انہوں نے اپنے دونوں ادوار میں دیانت داری سے کراچی کی خدمت کی اور اس شہر کو عروس البلاد بنادیا اس کے بعد نعمت اللہ خان نے سلسلے کو جاری رکھا اور بے مثال خدمات کے ذریعے کراچی کا نقشہ تبدیل کرکے رکھ دیا۔ ان کی اس کاوش نے جماعت اسلامی کی مقبولیت میں اور اضافہ کیا اس کے علاوہ اس وقت کے منتخب ارکان قومی اسمبلی نے بھی ملکی سطح پر خدمت کا فریضہ انجام دیا اس وجہ سے یہاں کی مقبول عام جماعت جماعت اسلامی رہی ہے اس بات کو مخالفین بھی سمجھتے تھے اسی لیے ہمیشہ جماعت کی اس مقبولیت کو ختم کرنے اور عوام کے دلوں سے اس کے اثرات کو ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں جن میں سب سے اہم کوشش کراچی میں ایم کیو ایم کی لسانی تنظیم کی داغ بیل ڈا لنا ہے یہ ایک ایسی مذموم کوشش تھی جس نے آن کی آن میں تمام شہر کے اندر لسانی عصبیت کی آگ بھڑکادی اور تمام لسانی اکائیوں کو آپس میں ایک دوسرے کے خون کا پیاسا کردیا، ہزارو ں جوان اپنے جانو ں سے گئے اس شہر کے تمام اچھی شناخت کو مٹا دیا گیا۔ بجائے قائد اعظم، علامہ اقبال، راشد منہاس اور ایم ایم عالم اس قوم کے ہیرو بنتے اس قوم کے ہیرو نعیم شری، اشرف کے ٹو اور ریحان کانا قرار پائے اور ملک کے اندر اردو بولنے والوں کے لیے نفر ت کے بیج بو دیے گئے اس کے بعد تین دہائیوں تک یہ شہر جلتا رہا۔ اس دوران جہاں تمام جماعتوں کو جانی مالی نقصان پہنچا وہاں جماعت اسلامی کے لیے بھی ان تین دہائیوں نے آزمائش اور ابتلا کی شکل اختیار کرلی اس دوران جماعت اسلامی نے اپنے انقلابی پیغام کو جبر اور ظلم کی آندھیوں کے باوجود لوگوں تک پہنچایا اور اس لسانی تعصب کے آگے بند باندھنے کی پوری قوت سے کوشش جاری رکھی۔ لسانی تعصب کی آگ کو بھڑکانے میں ملک کی دوسری لسانی جماعتوں نے بھی کردار ادا کیا اور اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنے اپنے کارڈ کھیلے۔
محرومیوں کی خالق یہ جماعت عوام کے اندر محرومیوں کو پیدا کرتی رہی اور اسی کو وہ عوام کے اندر اپنے لیے ہمدردی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتی رہی۔ اور بھولے بھالے عوام ان کے لیے اپنے دیدۂ دل فراش راہ کرتے رہے۔ یہی تمام لسانی تنظیموں کا طریقہ واردات ہوتا ہے۔ عوام کے مسائل کو حل کرنا ان کے ایجنڈے کا حصّہ ہی نہیں ہوتا۔ اس کی زندہ مثال آج شہر کراچی ہے جو مسائل آج سے تیس سال پہلے موجود تھے ان میں اضافہ ہی ہو ا ہے۔ مگر جماعت اسلامی نے اپنے فرض منصبی کو ادا کرنے کی مسلسل کوشش کی ہے اور لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ یہ حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔ یہ شہر کروٹ لیتا محسوس ہورہا ہے لو گ اب اس سحر سے نکل رہے ہیں حالیہ تناظر میں اگر دیکھا جائے تو حقوق کراچی مارچ نے اس حقیقت کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ بات صرف یہی نہیں کہ ایک مارچ کرلیا جائے اور اس میں عوام کی ایک بڑی تعداد اس میں شریک ہوجائے اور بات آئی گئی ہوجائے۔ اس مارچ نے دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے الارم بجا دیا ہے جبھی تو تمام بڑی جماعتیں اب کراچی کے حقوق کی مالا چبھ رہی ہیں۔ اس بوکھلاہٹ میں ایم کیو ایم کے مارچ نے تو ان کی ساری حقیقت عوام کے سامنے کھول کررکھ دی۔
جماعت نے اب تک جو بھی کام کیے وہ عوام کی رائے سے اس کو ساتھ لے کر کیا ہے حقوق کی اس جنگ کو جیتنے کے لیے بھی عوامی رائے ضروری ہے اس کے بغیر یہ جنگ نہیں جیتی جاسکتی اب جماعت اسلامی 16،17،18اکتوبر کو ایک عوامی ریفرنڈم کرانے جارہی ہے تاکہ عوامی رائے کو پیش کرکے حکومت پر سیاسی دباؤ کو بڑھایا جائے مگر اس سے پہلے 14 اکتوبر کو ایک یوم یکجہتی کراچی منانے کا پروگرام ہے تاکہ ملکی سطح پر اس بات کو اجاگر کیا جاسکے کہ کراچی جو منی پاکستان ہے اور معاشی حب ہے اگر کراچی حقوق سے محروم رہے گا تو پورا پاکستان متاثر ہوگا۔
ماضی کی غلطی کو دہرا نا کسی ہوش مند حکومت کو زیب نہیں دیتا اور ساتھ ساتھ عوام کو بھی اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ حقوق کبھی تھالی میں سجا کر نہیں ملتے بلکہ اس جدوجہد میں عوامی کی شراکت لازمی ہے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد کی رائے اس عوامی ریفرنڈم میں حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے ضروری ہوگی۔ حقوق کراچی مارچ اس جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے… کراچی کو دوبارہ عروس البلاد بنانے کا۔