مکافاتِ عمل

308

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی سیاست میں اچانک واپسی پر سب ہی حیران ہیں اور ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں۔ اب کیا ہوگا؟ سیاست پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اور اس کے نتائج کیا ہوں گے۔
وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ترجمانوں کو نواز شریف کی تقریر ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ میاں نواز شریف اداروں کو لڑانا چاہتے ہیں۔ وہ فوج کو رسوا کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ میاں نواز شریف نے اپنی تقریر میں فوج کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ انہوں نے سیاسی مبصرین اور میڈیا کی طرح ملک کی خرابی کا سبب ان قوتوںکو قرار دیا ہے۔ جو عمران خان کو کندھوں پر بٹھا کر ایوان میں اقتدار میں لائے ہیں۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ میاں نواز شریف کی تقریر کو پبلسٹی تو حکومت کے ترجمان دے رہے ہیں۔ اور بڑی دیدہ دلیری سے میاں نواز شریف کو بھارت کا ایجنٹ اور ملک کا غدار قرار دے رہے ہیں۔ مگر قوم جانتی ہے کہ یہ سیاسی بیانات ہیں حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ قصور حکومت اور اس کے ترجمانوں کا بھی نہیں یہ مکافات عمل ہے۔ میاں نواز شریف بینظیر بھٹو کو ملک کا غدار قرار دیتے رہے ہیں۔
امریکا کا انتخابی ہنگامہ زوروں پر ہے۔ امریکی صدر نے اپنے مخالف کے بارے میں کہا کہ اگر وہ کامیاب ہو گئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ چین کامیاب ہو جائے گا۔ مگر ان کے بیان پر کسی نے کوئی توجہ نہ دی۔ مگر ہمارا میڈیا سیاست دانوں کے بیانات کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ جھوٹ سچ لگنے لگتا ہے۔
یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کو کس نے نوازا ہے۔ یہ کس کی نوازش ہے انہوں نے اپنی سیاسی توپوں کا رخ حکومت کی طرف کر دیا ہے۔ اور حکومت کیوں ان کی مقبولیت کا سبب بن رہی ہے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف جب عدالتوں کی پکڑ میں آئے تو علمائے کرام جو میاں نواز شریف کی پکڑ میں آتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ میاں نواز شریف اللہ کی پکڑ میں آگئے ہیں ان کا بچنا محال ہے۔ اللہ کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے۔
بہت سے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ حکومتی رویے اور بیانیے نے میاں نواز شریف کی مقبولیت میں اضافہ کر دیا ہے۔ وہ اس بات کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کے حامیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جس رفتار سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے اگر غیر جانبدرانہ الیکشن ہوئے تو وزارت عظمیٰ زیادہ دور نہیں۔ ہم نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ مقتدر قوتیں وزیر اعظم عمران خان کی کارکردگی سے اس حد تک مایوس ہو چکی ہیں کہ وہ اپنی غلطی سدھارنے کا تہیہ کر چکی ہیں۔ مگر ابھی تک وہ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکیں۔ اس بات پر بھی غور غوص کیا جارہا ہے کہ قومی حکومت تشکیل دی جائے یا برے حکمرانوں میں سے کسی کم برے حکمران کی حکومت قائم کی جائے۔ حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ مسلم لیگ نواز کو کم برا قرار دیا جارہا ہے۔ اور اس امکان کا اظہار کیا جارہا ہے کہ حکومت کی باگ ڈور مسلم لیگ نواز کو سونپ دی جائے۔ اور اس امکان کو حقیقت کے قالب میں کیسے ڈھالا جائے۔ اس پس منظر میں ہم نے اپنے کالم میں ’’کیا یہ ممکن ہے‘‘ میں لکھا تھا اور اس امکان کا اظہار کیا تھا کہ عدلیہ جو سخت فیصلے سنا رہی ہے اپیل میں نرمی برتے گی۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی حکومت کے قیام کے لیے ایسے بااثر افراد کی فہرست تیار کی جارہی ہے جن کا ماضی بے داغ اور قابل رشک رہا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ایسے افرا د بغیر کسی لالچ اور تنخواہ کے قوم کی خدمت سرانجام دیں گے۔ گویا اس حقیقت کا ادراک کر لیا گیا ہے کہ ملک میں امین و صادق کی کمی نہیں۔ ان کی صداقت اور امانت کا فیصلہ کسی عدالت نے نہیں کیا بلکہ س کی گواہی ان کے کردار نے دی ہے۔ یہ لوگ ایسے عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ جہاں ملک کے وسائل ہڑپ کرنے اور دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں کوئی پابندی نہیں۔ مگر ان لوگوں نے پوری امانت داری سے اپنا فرض نبھایا۔ اور ایسی کوئی حرکت نہیں کی جو ان کی دولت میں اضافہ کا سبب بنتی۔
بعض حلقوں کی جانب سے اس رائے کو بھی اہمیت دی جارہی ہے کہ بڑی برائی کے بجائے چھوٹی برائی کو قبول کر لینا ہی وقت کا تقاضا ہے۔ اس رائے کو اہمیت دینے والوں کا خیال ہے کہ چھوٹی برائی سے مراد مسلم لیگ نواز ہے۔ میاں نواز شریف کو اسی لیے علاج کے لیے لندن بھیجا گیا ہے کہ وہ ملک کے حالات کا مقابلہ کر سکیں اور وقت آنے پر اپنی سیاسی رائے کا اظہار کر سکیں۔ شاید اسی لیے تحریک انصاف کی حکومت میاں نواز شریف کے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہے کہ وہ سیاست میں متحرک اور فعال ہو چکے ہیں۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا سیاست میں فعال ہونا اس رائے کی تصدیق ہے کہ چھوٹی برائی سے مراد میاں نواز شریف ہی ہیں اور یہ توقع درست ہے کہ الیکشن سے قبل میاں نواز شریف تشریف لے آئیں گے۔ تا کہ مسلم لیگ ن کے کارکن بھی فعال ہو جائیں۔ مگر یہ سب کیسے ہو گا؟ کیوںکر ہوگا؟ اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہی ہو گا۔ مگر جو قوتیں امریکا سے کسی بندے کو بلا کر پاکستانی عوام پر مسلط کر سکتی ہیں ان کے لیے یہ کام مشکل بھی نہیں۔ اگر وہ قوتیں الطاف حسین کو عبرت کا نشان بنا سکتی ہیں تو میاں نوز شریف کو گلے بھی لگا سکتی ہیں۔ عدالتوں سے میاں نواز شریف کے حق میں فیصلے آسکتے ہیں۔ ناراض لیگی رہنما خوش آمدید کہہ سکتے ہیں۔ اور یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ پاکستانی سیاست میں سب کچھ ممکن ہے۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ قومی حکومت کی تشکیل دی جاسکتی ہے۔ مگر اس سوچ سے بھی انکار ممکن نہیں جس کو ٹانگ مار کر گرایا جائے اسے سہارا دینے کا حوصلہ بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے۔ یوں بھی سیاست امکانات کے دائرہ میں گھومتی ہے اور اپنا رخ کسی بھی جانب کر سکتی ہے۔