مولانا ڈاکٹر عادل خان شہید

361

’’ہمیں دنیا سے جانا ہے، مجھے جانا ہے، آپ کو جانا ہے۔ ایمان کے ساتھ جارہے ہیں، اللہ کی نسبت پر جارہے ہیں، دین کا کام کرتے ہوئے جارہے ہیں، آج کے زمانے کے اندر، حالات کا جو تقاضا ہے اس کا مقابلہ کرتے ہوئے جارہے ہیں، مجھے اس موت پر فخر ہے‘‘۔ یہ آواز اتوار 11اکتوبر 2020 ہزاروں سوگواروں کی آہوں اور آنسوئوں کے ساتھ لحد میں اتار دی گئی۔ یہ آواز جامعہ فاروقیہ کے مہتمم ڈاکٹر عادل خان شہید کی آواز تھی۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی آخری کتاب میں قرار دیا گیا ہے ’’اس شخص سے بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں (فصلت: ۳۳)‘‘۔ جو اللہ کے محبوب ہوتے ہیں ان کی پوری زندگی دین ودعوت کے گرد گھومتی ہے اور موت بھی۔ امامت وخطابت، دعوت وتبلیغ، تعلیم وتدریس، پند ونصیحت، وعظ وترغیب اور ہر وہ کام جو اللہ کے بندوں کو اللہ کے قریب کرسکے۔ مولانا عادل نے اپنے لیے ایسی زندگی پسند کی تھی اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایسی موت، شہادت کی موت۔ رسالت مآب سیدنا محمدؐ کا ارشاد ہے ’’جب اللہ تعالیٰ اس دنیا سے علم اٹھانا چاہیں گے تو یکایک نہیں اٹھائیں گے، بلکہ دھیرے دھیرے علمائے کرام کو اٹھائیں گے، جس کی وجہ سے علم خود بخود اٹھ جائے گا، نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ کوئی عالم باقی نہیں رہے گا اور معاملہ جاہلوں کے ہاتھ میں آجائے گا، ان سے دینی مسائل پوچھے جائیں گے اور وہ اپنی رائے سے مسائل بتائیں گے، نتیجتاً خود بھی گم راہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گم راہ کریں گے‘‘۔
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں ’’جو شخص کتابوں کی ورق گردانی سے علم حاصل کرے گا وہ اللہ کے دیے گئے احکامات کو ضائع کردے گا‘‘۔ آج ایسا ہی ہے۔ کتابوں کو استاد بنا لیاگیا ہے اور علماء سے رجوع نظر انداز کردیا گیا ہے۔ قرآن وحدیث میں موجود احکام کی فہم کے لیے محض عقل ودانش اور مطالعہ کافی نہیں، علماء وفقہاء تک رسائی، ان کی صحبت اور شاگردی لازمی ہے۔ قرآن علوم کا وہ سمندر ہے، علوم کے تمام سمندر جس میں آکر گرتے ہیں۔ قرآن وحدیث کے فہم کے لیے ان سارے علوم کا جاننا ضروری ہے۔ نحو وصرف، لغت، بلاغت، اصول تفسیر، سیرت، تاریخ، علم اسناد حدیث، اسماء الرجال وغیرہ۔ ان علوم کا حصول علماء کرام کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیے بغیر! ناممکن۔ سیدنا ابو بکرؓ اور سیدنا عمرؓ نے ڈھائی برس لگائے تب محض سورہ بقرہ کا علم حاصل کیا جب کہ عربی ان کی مادری زبان تھی جب کہ معلم وہ تھے جن کی تعلیم اور تربیت نے وہ سنہری نسل تیار کی جن کے علوم کے آگے آج بھی انسانیت کی آنکھیں خیرہ ہیں۔ سیدنا عدی بن حاتم ؓ اہل زبان تھے لیکن خط ابیض اور خط اسود کا مفہوم نہ سمجھ سکے۔ علماء کرام کی شاگردی کے بغیر قرآن مجید کی عبارت درست طریقے سے نہیں پڑھی جاسکتی۔ حقائق ومعانی تک رسائی کیسے ممکن ہے؟
مولانا عادل خان کا شمار ان طالع وروں میں ہوتا ہے جنہوں نے انسانیت کی خدمت کے لیے قرآن کو سیکھا اور پھر تازندگی قرآن کے نور سے دنیا کو روشن رکھنے کا اہتمام کرتے رہے۔ ختم المرسلین محمدؐ کے بعد اللہ سبحانہ تعالیٰ کے احکامات کو کھول کھول کر بیان کرنا علماء کرام کی ذمے داری ہے۔ مولانا عادل ان علماء میں سے تھے جن کے روز وشب قرآن وحدیث کے علوم کی تعلیم میں بسر ہوتے تھے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 63سال تھی۔ وہ شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان کے بڑے صاحبزادے تھے۔ 1973 دینی درسگاہ جامعہ فاروقیہ ہی سے سند فراغت حاصل کی، کراچی یونیورسٹی سے 1976 بی اے ہیومن سائنس، 1978 میں ایم اے عرابک اور 1992 میں اسلامک کلچر میں پی ایچ ڈی کی۔ 1980ء (اردو انگلش اور عربی) میں چھپنے والے رسالے الفاروق کے تاحال ایڈیٹر رہے۔ 1986ء سے 2010 تک جامعہ فاروقیہ کراچی کے سیکرٹری جنرل رہے۔ کچھ عرصہ امریکا میں مقیم رہے، جہاں ایک بڑا اسلامی سینٹر قائم کیا۔ ملیشیا کوالالمپور کی مشہور یونیورسٹی میں 2010ء سے 2018 تک کلیہ معارف الوحی اور انسانی علوم میں بطور پروفیسر خدمات انجام دیں۔ 2018 تصنیف وتحقیق میں ملیشیائی ہائیر ایجوکیشن کی جانب سے فائیو اسٹار رینکنگ ایوارڈ سے نوازا گیا، یہ ایوارڈ آپ کو ملیشیا کے صدر کے ہاتھوں دیا گیا۔ وفاق المدارس، المدارس العربیہ کی مرکزی کمیٹی کے سینئر رکن اور وفاق المدارس کی مالیات نصابی اور دستوری کمیٹی جیسی بہت سی اہم کمیٹیوں کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔
مولانا ڈاکٹر عادل خان کو اردو انگلش اور عربی سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ بہترین معلم، خطیب اور ادیب۔ علوم القرآن، علوم الحدیث، تعارف اسلام، اسلامی دنیا، اسلامی معاشیات، اخلاقیات فقہی مسائل آیات احکام القرآن اور احکام فی الاحادیث، مقاصد شریعہ، تاریخ اسلام، خاص کر تاریخ پاکستان اور اردو اور عربی ادب ان کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ 2017ء میں والد مولانا سلیم اللہ خان کے انتقال کے بعد پاکستان واپس آئے جامعہ فاروقیہ کی دونوں شاخوں کا نظم ونسخ سنبھالا اور شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز ہوئے۔ جامعہ فاروقیہ حب چوکی کو وہ ایک جدید خالص عربی پر مبنی تعلیمی ادارہ اور یونیورسٹی بنانا چاہتے تھے۔
ڈاکٹر عادل اپنے نام کی طرح تھے، اسم بامسمی، عدل واعتدال کے پیکر، خندہ رخ، روشن جبیں، سرخ وسفید۔ سب کے لیے دعائوں اور کلمات تحسین سے روشن وآراستہ۔ دوسروں کو آگے بڑھا کر خوش ہونے والے۔ ہر ایک سے مسکرا کر ملنا ہر ایک کو اپنا سمجھنا۔ عالمی مسائل ہوں یا ملکی معاملات، دینی عقائد کے تحفظ کا مسئلہ ہو یا قومی اور مذہبی وحدت کا معاملہ، مساجد کے مسائل ہوں یا وفاق المدارس کے امور، تعلیمی نظام کی بات ہو یا تحقیق کی، دینی جا معات میں عصری علوم کی تدریس کا معاملہ ہو یا پسماندہ علاقوں میں شعورکی بیداری کا، معاشیات کا باب ہو یا حلال وحرام کا، آپ کی وسعت نظری قابل رشک تھی۔ آپ سے مشاورت ضروری خیال کی جاتی تھی۔ خلوص آپ کا مزاج تھا۔ طبیعت کی سادگی، سب کو ساتھ لے کر چلنا، بڑوں کا ادب، چھوٹوں پر شفقت اور انہیں آگے بڑھانا، معمولات پر کاربند رہنا، اہل وعیال اور طلبہ کے مسائل میں دلچسپی، یہ سب کچھ ان کا معمول تھا مگر نمود ونمائش سے بچتے ہوئے، اعتدال کے ساتھ۔ بعض شخصیات کے باب میں نام کام اور عمل بن جاتا ہے، مولانا عادل ان ہی میں سے تھے۔
مولانا عادل خان علماء حق کے اس خوش اقبال گروہ کے رکن تھے جنہیں حکومتوں کی طرف سے مال ودولت اور اعلیٰ عہدوں کے نذرانے نہیں، دار ورسن، سزائیں اور شہادت کی خونناب خلعت ملتی ہے۔ مولانا عادل قبلہ نما کی مانند تھے۔ زمانہ کیسے ہی رخ بدلے، ہوا کسی بھی سمت ہو۔ فکر اور جدوجہد کے پیمانے کیسے ہی بدل جائیں، خارجی اور داخلی فتنے جیسی ہی سازش اور فتنے لے آئیں، یہ قبلہ نما لوگوں کو گمراہ ہونے نہیں دیتے، استقامت سے دین کی سمت رہنمائی کرتے رہتے ہیں۔ آج جب کہ مغرب میں کوئی شخصیت حتی کہ پیغمبروں کو بھی تقدیس حاصل نہیں۔ ان کی مذہبی کتابوں میں پیغمبروں کے بارے میں انتہائی نازیبا ملتی ہیں۔ مغرب یہی کھیل مسلمانوں میں بھی کھیلنا چا ہتا ہے۔ رسالت مآب سیدنا محمدؐ کے باب میں انہوں نے تمام حربے آزما دیکھے لیکن عشق رسول کی بنیاد متزلزل ہونا تو دور کی بات ہے اس میں ایک بال برابربھی فرق نہیں آیا۔ اب وہی حربے صحابہ کرامؓ کے حوالے سے آزمائے جارہے ہیں لیکن مولانا عادل جیسی شخصیات سے اس باب میں، جدوجہد میں، فرض منصبی میں کوئی رعایت مل جائے، ممکن ہی نہیں۔ قبلہ نما درست سمت بتانے میں چاہے وہ عقائد وحدود شرعیہ کا معاملہ ہو یا ناموس صحابہ کا کوئی رعایت نہیں کرتا۔ رہی جان، اس کی تو کوئی حقیقت نہیں، اس کا تو کوئی ذکر نہیں۔۔۔ گربازی عشق کی بازی ہے جو چا ہو لگادو ڈر کیسا۔۔ گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں۔