وزیرستان اور گوادرمیں حملے‘کیپٹن سمیت21 جوان شہید

203

کوئٹہ /راولپنڈی (نمائندہ جسارت+ مانیٹرنگ ڈیسک) بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سیکورٹی فورسز پر ہونے والے حملوںمیں 15 سیکورٹی اہلکاروں سمیت 21 افراد شہید ہو گئے ۔فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان کے علاقے رزمک میں دہشت گردوںنے سیکورٹی فورسز کے ایک قافلے پر دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول ڈیوائس (آئی ای ڈی) سے حملہ کیا۔اس حملے میں فوج کے کیپٹن عمر فاروق سمیت 2 نائب صوبیدار، ایک حوالدار، ایک نائیک اور ایک لانس نائیک شہید ہوئے ۔بی بی سی کے مطابق مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ شمالی وزیرستان کے علاقے گڑیوم کے سرحدی علاقے زیڑ نرائی میں 2 دھماکوں کی آوازیں سنی گئی تھیں جس کے بعد معلوم ہوا حملہ سیکورٹی فورسز پر کیا گیا۔اس حملے کی ذمے داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔ طالبان کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ حملہ ریموٹ کنٹرول ڈیوائس سے کیا گیا ہے۔جس علاقے میں سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا وہ شمالی اور جنوبی ویرستان کا سرحدی علاقہ ہے جس کے ایک طرف شمالی وزیرستان کی تحصیل گڑیوم ہے ۔دوسرا حملہ صوبہ بلوچستان کے ضلع گوادر کی تحصیل اورماڑہ میں آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) کے قافلے پر ہوا جس میں ایف سی کے 8اہلکاراور7سویلین محافظ شہید ہوئے۔صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ واقعہ ضلع گوادر کی تحصیل اورماڑہ کے علاقے سرپٹ میں ہوا جو کہ بزی ٹاپ سے 8 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔وزیر داخلہ کے مطابق مرنے والوں میں ایف سی کے 8اہلکار جبکہ نجی سیکورٹی کمپنی سے منسلک 7ملازمین شامل ہیں۔وزیر داخلہ نے بتایا کہ اوجی ڈی سی ایل کا قافلہ گوادر سے کراچی جارہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قافلے کی حفاظت پر نہ صرف اوجی ڈی سی ایل کی اپنی سیکورٹی مامور تھی بلکہ فرنٹیئر کور کی جانب سے بھی انہیں سیکورٹی فراہم کی جارہی تھی۔وزیر اعظم عمران خان کے آفس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں شہید ہونے والوں کے خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے اس واقعے کی رپورٹ طلب کی گئی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے کہا کہ حملے میں ملوث افراد کے خلاف فوری کارروائی کی جائے گی اور انہیںکیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے ٹوئٹر پر جاری پیغام میں کہا ہے کہ کوسٹل ہائی وے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی جانوں کا ضیاع اس بات کی علامت ہے کہ دشمن بلوچستان اور اس کے عوام کو ترقی کرتے نہیں دیکھ سکتا۔ادھر بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) نے اورماڑہ میں حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔واضح رہے کہ بلوچ راجی آجوئی سنگر بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان ریپبلکن گارڈز پر مشتمل مسلح اتحاد ہے، جس کا قیام 2018ء میں عمل میں آیا تھا۔اس حوالے سے 10 نومبر کو ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا تھا۔ اس اتحاد کی کارروائیوں کا مرکز زیادہ تر چین پاکستان اقتصادی راہدری کے آس پاس کے علاقے ہیں۔براس کی جانب سے اب تک 14 دسمبر 2018 کو تمپ میں فورسز کے قافلے پر حملے اور مقابلے کے علاوہ رواں سال 17 فروری کو تربت اور پنجگور کے درمیان فورسز پر حملے کے دعوے سامنے آ چکے ہیں۔