نیا انڈو پیسفک امریکی اتحاد

192

انڈیا، آسٹریلیا، جاپان اور امریکا کے وزرائے خارجہ ٹوکیو میں ملاقات کر رہے ہیں اور اس ملاقات کے دوران ان ممالک کے وزرائے خارجہ کی جانب سے خصوصی اہمیت چین کے ساتھ معاملات کو دیے جانے کی توقع ہے۔ ان چار ممالک کے گروپ کو ’’کواڈ‘‘ کا نام دیا گیا ہے جن میں امریکا معاشی لحاظ سے سر فہرست ہے جبکہ جاپان دنیا کی تیسری اور انڈیا معاشی لحاظ سے پانچویں بڑی معیشت ہے جب کہ آسٹریلیا کا شمار بھی ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ چاروں بڑی طاقتیں دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کے دنیا پر بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور دنیا کے چین پر انحصار کو کم کرنے کے ارادے سے ٹوکیو میں جمع ہوئی ہیں۔ انڈیا، جاپان اور آسٹریلیا کی اس کوشش کو سپلائی چین ریزیلیئنس انیشی ایٹو (ایس سی آر آئی) کا نام دیا گیا ہے جس کا مقصد ایسی راہیں نکالنا ہیں جن سے چین پر انحصار کم ہو اور دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر سپلائی چین کو بہتر بنانے کے طریقے تلاش کیے جائیں۔ ان کوششوں کو چینی صدر شی جن پنگ کے ’بیلٹ اینڈ روڈ کے متبادل کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکا کواڈ اور ایس سی آر آئی کو تجارت، صحت اور سلامتی کے شعبوں میں چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ٹوکیو کے زیربحث اجلاس میں ان چار ممالک کے درمیان سیکورٹی تعاون کو بڑھانے، صحت سے متعلق معاملات اور اس کے بنیادی ڈھانچے کی مضبوطی کے لیے مشترکہ حکمت عملی بنانے اور اس پر عملدرآمد کرنے پر بات ہو گی۔ دراصل یہ چار ممالک چین کے دنیا پر بڑھتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی اثرات سے پریشان نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب پچھلے مہینے چین کے نائب وزیر خارجہ نے کواڈ کو ’چین مخالف فرنٹ لائن‘ یا ’منی ناٹو‘ قرار دیتے ہوئے اس کی تشکیل پر اعتراض کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ کواڈ ممالک کورونا کی وبا کے خلاف جنگ میں اپنی ناکامی چھپانے کے لیے چین کے خلاف محاذ آرائی کو استعمال کر رہے ہیں۔ کواڈ کے چین کے لیے ممکنہ خطرات پر بات کرتے ہوئے ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ چین اس وقت بھی بھارت کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، آسٹریلیا کی کل برآمدات کا تقریباً نصف (48.8 فی صد) چین کو جاتا ہے۔ چین اور جاپان کے درمیان 2019 میں دوطرفہ تجارت 317 ارب ڈالر تھی جو جاپان کی کل تجارت کا 20 فی صد ہے۔ اسی طرح امریکا چین کے درمیان تجارتی جنگ کے باوجود 2019 میں ان کی دو طرفہ تجارت 558 ارب ڈالر تھی۔ ان حقائق سے یہ واضح ہے کہ ان ممالک کا چین سے فوری چھٹکارا حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا اور اس کے حصول میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ البتہ دوسری جانب یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ امریکا نے 2018 کے بعد ہی سے چین کے خلاف محصولات کی دیوار تعمیر کرنا شروع کر دی تھی۔ جاپان اپنی ان کمپنیوں کو واپس لانے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے جن کے پروڈکشن یونٹ چین میں ہیں اور آسٹریلیا نے بھی چین کی دھمکیوں میں آنا بند کر دیا ہے لیکن چین کے خلاف اٹھائے گئے یہ تمام تر اقدامات اب تک زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ محصولات کی جنگ کے باوجود چین نے رواں سال جولائی تک امریکا کو 220 ارب ڈالر مالیت کی اشیاء برآمدکی ہیں۔ جب کہ اس عرصے میں امریکا نے چین کو تقریباً 60 ارب ڈالر کا سامان بھی فروخت کیا ہے جبکہ جاپان کی مجبوری یہ ہے کہ چین اس کے لیے ایک بڑی منڈی ہے۔ یاد رہے کہ اس چار فریقی اتحاد کو 2007 میں اس وقت کے جاپانی وزیرِ اعظم شنزو ایبے کی کوششوں سے غیر رسمی طور پر قائم کیا گیا تھا۔ اسی سال چاروں ممالک نے بحرہند میں مشترکہ بحری مشقیں بھی کی تھیں۔ تاہم یہ اتحاد اس وقت اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا کیونکہ 2008 میں آسٹریلیا ان مشقوں سے نکل گیا تھا اور انڈیا نے اسے دوبارہ شرکت کی دعوت دینا بھی گوارہ نہیں کی تھی۔ البتہ انڈین میڈیا کی حالیہ رپورٹوں کے مطابق اگلے
برس کے آغاز میں یہ بحری مشقیں متوقع ہیں اور اب انڈیا ان میں آسٹریلیا کو بھی شرکت کی دعوت دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ دراصل اس اتحاد میں انڈیا کی دوبارہ دلچسپی کا مقصد اپنی سرحدی حدود کو محفوظ رکھنے کے لیے بین الاقوامی حمایت اور مدد حاصل کرنا اور چین کے خلاف ایک مضبوط فورس تیار کرنا ہے۔ اس موقع پر آسٹریلیا کو مشترکہ بحری مشقوں میں شرکت کی دعوت دینے کا واضح مطلب چین کو یہ پیغام دینا ہے کہ مجموعی طور پر انڈو پیسیفک خطے کے تناظر میں یہ ممالک چین کے خلاف جمع ہو رہے ہیں لیکن بین الاقوامی مبصرین کا خیال ہے کہ ایسی کوئی بھی کوشش چین کو ناراض کر سکتی ہے اور وہ اس کے رد عمل میں بھارت کے ساتھ سرحدی کشیدگی کے خاتمے کے لیے جاری مذاکرات کو ختم بھی کر سکتا ہے۔ مبصرین کے خیال میں اگر یہ اتحاد ایک رسمی شکل اختیار کر لیتا ہے تو یہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی بڑی کامیابی تصور کی جائے گی جس کا اثر نومبر میں امریکی صدارتی انتخابات پر بھی پڑنے کا امکان ظاہرکیا جارہا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس اتحاد کا اصل امتحان یہ ہو گا کہ چین کے ساتھ دوطرفہ تنازعات میں رکن ممالک کس حد تک ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں کیونکہ امریکا، آسٹریلیا، انڈیا اور جاپان سیکورٹی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ پوری طرح یکسو نظر نہیں آتے ہیں لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں انڈوپیسیفک کا امریکی سرپرستی میں اتحاد کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔