وزیراعظم عمران خان نیازی اب اُن مافیاز کے سامنے مکمل بے بس ہوچکے ہیں جو ان کے دائیں بائیں موجود ہیں۔ سب کو جیل میں ڈال دوں گا۔ مافیاز کو نہیں چھوڑوں گا کی تشریح رفتہ رفتہ ہوتی جارہی ہے۔ عوام جیل میں ہیں اور وزیراعظم کسی صورت مافیاز کو چھوڑنے کو تیار نہیں۔ انہیں دل سے لگا رکھا ہے۔ اگر کسی کو انارکی پھیلنے کا مطلب نہ معلوم ہو تو اب اچھی طرح معلوم ہوجانا چاہیے۔ حکومت پوری طرح عضو معطل بنی ہوئی ہے۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ حکومت کوئی اور چلارہا ہے تو اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔ عمران خان نیازی جو کچھ کررہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ بھینسوں کی فروخت، مرغی اور انڈے سے کاروبار اور معیشت کا استحکام۔ بلٹ پروف گاڑیوں کی فروخت اور ایوان صدر اور وزیراعظم میں یونیورسٹی، ایک کروڑ ملازمتیں، 50 لاکھ گھر… اس کے بعد یوٹرن… جو لوگ حکومت میں طاقتور اور بااختیار ہیں وہ وزیراعظم نہیں ہیں، وزیر بھی سارے بااختیار نہیں ہیں۔ جو بیرون ملک سے آئے ہیں یا عالمی بینک اور آئی ایم ایف سے آئے ہیں وہ بااختیار ہیں۔ وزرا سمجھتے ہیں کہ وہ وزیر ہیں لیکن جس وزارت میں مشیر یا معاون خصوصی موجود ہے اس میں وزیر کی کوئی اوقات نہیں۔ وزارتیں مشیر اور معاون خصوصی چلارہے ہیں اور اب تمام سرکاری اداروں کو ناکام ثابت کرنے کا اعلان بھی ہوگیا جس کے مطابق سرکاری اداروں کے حصے کا کام وزیراعظم کی ٹائیگر فورس کرے گی۔ اس سے قبل بھی کورونا کے خلاف ٹائیگر فورس کو لڑنے کے لیے میدان میں بھیجا تھا کہاں لڑائی ہوئی اور کہاں کس کو شکست ہوئی اس کا کسی کو پتا نہیں چلا۔ یہ بھی پتا نہیں کہ ٹائیگر فورس کی سرگرمیوں کے لیے کتنے فنڈز جاری ہوئے اور کس کو ملے۔ ویسے تو پورے ملک میں لاک ڈائون کے دوران ملک بھر سے اور دنیا بھر سے حاصل ہونے والے اربوں روپے کا کوئی حساب نہیں ملا تو ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر کون توجہ دے گا۔
حکومت کوئی اور کررہا ہے، ایک ایسا مبہم جملہ ہے جس کا مطلب ہر کوئی سمجھتا ہے لیکن اس کی وضاحت کوئی نہیں کرتا کیوں کہ ابہام میں جو وضاحت ہے اس کے لیے کسی لغت کی ضرورت نہیں۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ کوئی حکومت کر بھی رہا ہے؟ اگر دیکھا جائے تو ایسا لگ رہا ہے کہ چند ماہ کے اندر ملک میں بیروزگاری، مہنگائی اس کے نتیجے میں بدامنی اور کرپشن کا سونامی آنے والا ہے۔ 70 برس سے مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے لیکن اس کی کوئی شرح ہوتی تھی۔ تمام ادارے پیش گوئی کرتے تھے کہ اگلی سہ ماہی میں کیا صورت حال رہے گی لیکن پاکستان میں اب یہ صورت حال ہے کہ کوئی اور تو کجا حکومت بھی یہ نہیں کہہ سکتی کہ معاشی صورت حال کل کیا ہوگی۔ قیمتوں کا حال اگلے دن کیا ہوگا، پورے ملک میں حکومت کے علم میں نہیں ہے کہ قیمتیں کون بڑھا رہا ہے۔ چینی، گندم، آٹا، دالیں، سبزی کون مہنگی اور غائب کررہا ہے۔ ٹماٹر جیسی چیز جو چار دن سے زیادہ رکھی نہیں جاسکتی اسے بھی دو سو روپے کلو تک پہنچایا گیا ہے۔ نہ لوگ خریدنا چھوڑ رہے ہیں نہ ذخیرہ اندوز باز آرہے ہیں۔ پھر تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کوئی اور کررہا ہے۔ خان صاحب کی بات بھی نرالی ہے ہر دو چار دن بعد کہتے ہیں کہ مافیا کو نہیں چھوڑوں گا۔ مافیا سے لڑائی ہے اب کہا ہے کہ مافیاز کو دیکھ لوں گا۔ خان صاحب کے جاننے والے بتاتے ہیں کہ جس وقت وہ سیاست میں کودے تھے ان کا پسندیدہ گلوکار نصرت فتح علی تھا جو آج بھی ہوگا۔ اس کا ایک گانا ان کی سیاست کے ابتدائی دنوں میں بہت مقبول تھا جس سے یہ تاثر بنتا تھا کہ شاید اس سے عمران خان بہت متاثر ہیں۔ بلکہ وہ دور اور ان کی عمر بھی ایسی تھی کہ اس قسم کے گانوں کو پسند کریں۔ ایک گانا
کڈا سوہنا تینوں ربّ نے بنایا
جی کردا تینو ویکھ دا رواں
ایک اور گانا تھا
’’آفرین آفرین‘‘ ان کی نجی محفل میں اس کے بڑے چرچے تھے لوگ کہتے ہیں کہ خان صاحب آخر الذکر گانے کے بارے میں پوچھتے تھے تو کسی نے انہیں اردو میں بتایا کہ اگر آپ دیکھ لیں تو دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجائیں۔ اتنی اردو کہاں آتی تھی بھائی کو وہ یہی سمجھے کہ اس گانے میں جو کچھ ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ مافیا اتنی خوبصورت ہے کہ بس اسے دیکھتے ہی رہو۔ چناں چہ اب وہ مافیا کو چھوڑنے پر بھی تیار نہیں اور برملا کہتے ہیں کہ مافیاز کو دیکھ لوں گا۔ لہٰذا کپتان پر آفرین ہے۔ چاروں طرف مافیاز ہیں ان کی مدد سے بلکہ ان کے سہارے حکومت چلا رہے ہیں تو انہیں کیسے چھوڑ سکتے ہیں، اس لیے کہتے ہیں کہ مافیاز کو نہیں چھوڑوں گا۔ اور گئے دنوں کی یاد تازہ کرنے کے لیے دنیا و مافیا سے بے خبر ہونے کے لیے کہتے ہیں کہ مافیاز کو دیکھ لوں گا۔ ویسے دنیا و مافیہا سے بے خبر ہونے کے دیگر انتظامات بھی ہیں۔ خیر وزیراعظم سے آئینی اور قانونی تحفظ بھی دے رہے ہیں۔ ان مافیا سے محبت کا عالم یہ ہے کہ ان کی محبت میں وزیراعظم حقیقتاً دونوں جہاں وار دینے کو تیار ہیں بلکہ وار دیے ہیں۔ عوام آٹے، چینی، دودھ، سبزی حتیٰ کہ دوائوں کے لیے بھی دھکے کھا رہے ہیں اور دھکے کھا کر بھی اگر یہ اشیا مل جائیں تو غنیمت ہے۔ یہ اشیا خریدنے کے پیسے بھی تو نہیں روزگار ختم، کاروبار ختم، بچت ختم اب اتنی مہنگی اشیا کہاں سے خریدیں۔ وزیراعظم نے سب کو واردیا اور مافیاز کو پاس بٹھالیا ہے۔ اسی لیے صاف کہہ دیا ہے کہ کچھ ہو جائے اپوزیشن جو چاہے کرلے مفاہمت نہیں ہوگی۔ یہ جملے تو آخری دنوں کے ہوتے ہیں جب ایسی باتیں روز کی جاتی ہیں، کرسی مضبوط ہے فوج پیچھے ہے۔ فوج کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ پیچھے رہتی ہے۔ حکومت چلانی ہو تو پیچھے رہتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت گرانی ہو تو بھی پیچھے رہتی ہے کسی کی دوڑ لگوانی ہو تو اس کے بھی پیچھے رہتی ہے۔ آگے تو بھاگنے والے ہوتے ہیں۔
سب کو جیل میں ڈالنے اور اپوزیشن تحریک سے کچھ بھی نہ ہونے کی بات کرنے والے مفاہمت پر بھی تیار نہیں۔ کمال ہے انہیں بھی مافیا سمجھ کر دائیں بائیں جگہ دے دیں تا کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر ملک کو آگے لے جاسکیں۔ اس وقت تو حکومت اور اپوزیشن نے پورے ملک میں سیاسی ٹریفک جام کر رکھا ہے۔ ویسے اپوزیشن نے بھی کہا ہے نہیں چھوڑیں گے۔ ایک تو وہ کہتے ہیں حکومت کو نہیں چھوڑیں گے۔ دوسرے اب انہوں نے کہا ہے کہ ہم پارلیمنٹ کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔ اس سے بھی چمٹے رہیں گے۔