پاکستان سے مایوس کشمیریوں کی نظریں چین کی طرف

299

انڈیا ٹوڈے ٹی وی کو ایک خصوصی انٹرویو میں، جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبد اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی لداخ میں ایل اے سی پر چینی حملے کا باعث بنی ہے۔ انہوں نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ چین کے تعاون سے آرٹیکل 370 کو بحال کیا جائے گا۔ ان کے اس بیان پر پورے بھارت میں شور مچ گیا ہے اور بھارتی میڈیا بار بار یہ مطالبہ کر رہا کہ ’’فاروق عبد اللہ‘‘ کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔ یہ بات ساری دنیا جانتی کہ ’’سابق وزیر اعلیٰ شیح عبداللہ، سابق وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ، سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبد اللہ‘‘ یہ سب بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے نسل در نسل ساتھی رہے ہیں اور ان کے دور میں بھی آزادی کے مجاہدوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پھنکا جاتا رہا ہے لیکن آج یہی لوگ مظلوم کشمیریوں کی وکالت کے لیے میدان میں ہیں۔ بھارتی اخبارات یہ بھی بتا رہے ہیں کہ کشمیری عوام پاکستان سے مایوس ہو کر اب چینی صدر شی جن پنگ کی بڑی بڑی تصاویر کے ساتھ مظاہرے کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے اپوزیشن حکومت خلاف جاری احتجاج میں بار بار یہ بیان بھی دے رہی ہے کہ عمران حکومت نے ’’سقوط ِ کشمیر‘‘ کا جرم بھی کیا ہے۔ اس سلسلے میں ذرائع کا کہنا ہے حکومت کے 25فی صد وزیروں اور 75فی صد درآمدی مشیروں نے مسئلہ کشمیر ختم ہونے کا عندیہ دے دیا ہے۔ یہ عمل ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔
5 اگست 2019ء کو بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سے کشمیر میں گزشتہ ایک سال دو ماہ سے غیر معمولی لاک ڈاؤن جاری ہے۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کی شروعات اکتوبر 2019ء سے ہونی تھی لیکن غیر معمولی لاک ڈاؤن جنوری 2019ء سے شروع ہوگیا تھا۔ مسلم اکثریتی وادی کشمیر جس میں تقریباً اسی لاکھ آبادی ہے اور ہندوں کی اکثریت جموں جس میں تقریباً ساٹھ لاکھ افراد آباد ہیں۔ تیسرا علاقہ، لداخ جو نو تشکیل شدہ مرکزی علاقہ ہے۔ جس میں مسلمان اور بدھ مذہب کے پیرو کاروں کی تقریباً برابر تعداد ہے۔ بھارت نے ہندو قوم پرستوں کا 1950 کی دہائی کے اوائل کا مطالبہ آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا جائے کو منظور کر لیا۔ سات دہائیوں سے ہندو قوم پرست مسلسل آرٹیکل 370 کی مخالفت کرتے چلے آ رہے ہیں اور وہ اس کو بھارت کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کے ساتھ ’خوشامدانہ پالیسی قرار دیتے رہے ہیں۔ یہ اعتراض ہندو قوم پرستوں کے نظریاتی عقیدے کے مطابق بھی تھا۔ 2002 میں ہندو قوم پرست تحریک کی بنیادی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے ریاست کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس کے تحت ایک الگ ہندو اکثریتی جموں ریاست، مسلم اکثریتی وادی کشمیر اور لداخ کے لیے یونین ٹیریٹری کی حیثیت شامل تھا۔
اس کے ساتھ ہی آر ایس ایس سے وابستہ وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے ریاست کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس کے تحت ایک علٰیحدہ ریاست جموں اور لداخ کو مرکزی خطے کے طور پر اور اس کے علاوہ وادی کشمیر کا ایک بڑا حصہ کاٹ کر کشمیری پنڈتوں کو دینا تھا جس کی حیثیت یونین ٹیریٹری کی ہو اور وہاں پر صرف کشمیری پنڈت آباد ہوں گے۔ یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ان علاقوں میں ہندو اقلیت کی آبادی جو 1990ء میں وادی میں شورش پھوٹ پڑنے پر اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوگئی تھی۔ لیکن حریت رہنما سید علی گیلانی کا کہنا ہے کہ ان پنڈتوں کو آر ایس ایس، وی ایچ پی کے غنڈوں نے کشمیر سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔ اس کا یہ مقصد تھا کہ ریاست میں افراتفری، نفاق اور اندرونی انتشار کی کیفیت پیدا کر کے کشمیریوں کو آپس میں لڑوایا جاسکے۔ ان پنڈتوں سے کہا گیا تھا کہ چند ماہ میں یہاں سے مسلمانوں کا صفایا کرکے پورا کشمیر پنڈتوں کے حوالے کر دیا جائے گا۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا اور آج بھی یہ پنڈت دہلی میں پڑے واپسی کا انتظار کر رہے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گا ندھی کے درمیان شملہ معاہدے کے بعد کشمیر میں یہ تاثر گہرا ہوگیا تھا کہ پاکستان ریاست جموں و کشمیر پر اپنے موقف سے خود دستبردار ہوگیا ہے۔ 1990ء تک ریاست میں خاموشی چھائی رہی گو کہ جذبہ جہاد و آزادی سے سرشار بیش تر لوگ زیر زمین سرگرم عمل رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ریاست میں مکمل آزادی کے حامی سیاسی منظرنامے پر نمایاں ہونا شروع ہوگئے تھے جن کے بارے میں پاکستان کے حامی کشمیری رہنماؤں نے الزام لگایا کہ مکمل آزادی یا اس طرح کے آپشنز دراصل بھارت کی جانب سے جاری کیے جاتے ہیں۔
کشمیریوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ پاکستان ان کا خیر خواہ ہے مگر کشمیریوں کو اس بات کا بھی گلہ ہے کہ پاکستان نے ماضی میں کئی مرتبہ انہیں بے یارو مددگار چھوڑا۔ بھارت کو مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنے کے لیے عالمی اسٹیبلشمنٹ متعدد راستے بتانے مصروف ہے۔ جنگ یا قتل وغارت گری سے دنیا پر رعب جمایا جاسکتا ہے۔ نوے میں نوجوان نے جہاد کے لیے بندوق اٹھا کر بھارتی فوج سے نبرد آزما ہو ئے۔ اس جہاد میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید کیے گئے۔ سیکڑوں نوجوان لڑکیوں کی بھارتی فوجیوں نے عصمت دری کی، اس کے نتیجے میں بھارت نے مسلح تحریک کو دہشت گردی کے زمرے میں ڈال کر عالمی رائے عامہ کو اپنی طرف مائل کر لیا کیونکہ امریکا پر نائن الیون کے حملوں نے دنیا کی سوچ مسلمانوں کے خلاف کر دی ہے۔
بھارت کی بھرپور کوششوں کی وجہ سے عالمی سطح پر یہ موقف اتنا گہرا ہے کہ ایک سال دو ماہ کے دوران کشمیریوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک اور سخت کرفیو میں رہنے کے بعد بھی بیش تر ممالک اب تک ایک لفظ بھی نہیں بول پائے ہیں جس کا ذکر عمران خان نے نیو یارک میں خطاب کے دوران بھی کیا۔ ایک لفظ بھی نہ بولنے والوں میں چند اسلامی ممالک بھی شامل ہیں۔ کشمیریوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ پاکستان ان کا خیر خواہ ہی نہیں ہے بلکہ اس تنازعے کا ایک فریق بھی ہے گو کہ بیش تر کشمیری تنظیمیں پاکستان سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ کشمیر کو حاصل کرنے کے لیے بھارت پر جنگ مسلط کرے، کشمیریوں کو اسلحہ کیوں نہیں فراہم کرتا یا کشمیر کو حاصل کرنے کا روڈ میپ کیوں نہیں مرتب کرتا مگر پاکستان جس طرح اپنا قدم پھونک پھونک کر اُٹھا رہا ہے کشمیری ان حالات سے مکمل طور سے مایوس ہو چکے ہیں اب بھی اس بات میں کو ئی دوسری رائے نہیں کہ جنگ کے بغیر یہ مسئلے حل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان میں کشمیریوں سے ہمدردی کر نے والی حکومت کب آئے گی اور ہماری فوج کب آذربائیجان کے راستے کو اپنے لیے منتخب کر گی؟