کیا یہ استحکام کی راہ ہے

187

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک کو استحکام کی راہ پر ڈال دیا ہے اس دعوے کا سبب کیا ہے۔ سبب یہ ہے کہ عالمی بینک سے 1.15 ارب ڈالر کے معاہدے ہو گئے ہیں۔ ان معاہدوں سے ملک پر مزید کتنا بوجھ پڑے گا عوام مزید کتنے مقروض ہوں گے اس کا تو آنے والی حکومت کو پتا چلے گا یا عوام مستقبل میں اس کا حساب دیں گے۔ لیکن استحکام کی یہ راہ بڑی عجیب ہے۔ گندم درآمد کی جا رہی ہے۔ ایک لاکھ 80 ہزار ٹن کے بعد اب حفیظ شیخ صاحب نے مزید 3 لاکھ 40 ہزار ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ گویا ایک ماہ کے اندر پانچ لاکھ 20 ہزار ٹن گندم درآمد کر لی جائے گی۔ استحکام کی راہ یہ ہے کہ ڈالر 162 روپے کا ہو گیا اور مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کہتے ہیں کہ سابق حکومتوں نے ڈالر سستا کرکے معیشت کو نقصان پہنچایا۔ اس لطیفے پر دنیا بھر کے ماہرین اقتصادیات سر پکڑ کر بیٹھے ہوں گے۔ اگر حفیظ شیخ صاحب کی منطق کو کسی بھی اعتبار سے درست مان لیں تو ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ آپ نے کیا تیر مارا ہے۔ 98 روپے کے ڈالر کو 160 سے 170 کے درمیان پہنچا دیا ہے۔ ڈالر کی قیمت ان ہی کے درمیان ڈولتی رہتی ہے۔ اور اس کے نتائج کس قدر ہولناک ہیں پھر بھی وزیراعظم کہتے ہیں کہ استحکام کی راہ پر ملک کو ڈال دیا ہے۔ ان کے اقدامات سے تو ملک میں موجود مافیاز کو استحکام مل رہا ہے۔ قیمتوں میں اضافے کو استحکام مل رہا ہے اور غربت میں اضافے کو استحکام ملا ہے۔ وزیراعظم پناہ گاہیں بنا رہے ہیں۔ انہیں کچھ پتا ہے کہ وہ کر کیا رہے ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں۔