مصروفیت، معروضیت اور مغربی دنیا

603

(1)
اجتماعیت کی تشکیل کا عمل اخلاقی اصول پر ہوتا ہے۔ یہ اخلاقی شعور ہی ہے جو فرد کو باور کرواتا ہے کہ وہ اجتماعی وجود بھی ہے۔ اخلاقی اصول اور اقدار اگر صرف چند انفرادی رویّوں اور طرز ِعمل تک محدود ہوجائیں اور معاشرت میں اُن کا کوئی مؤثر کردار نہ رہ جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اجتماعیت کو اس کی مسلّمہ بنیادوں پر قائم کرنے یا رکھنے والی قوّتیں بہت کمزور پڑ گئی ہیں۔ یعنی ریاست یا حکومت اور سوسائٹی کے ادارے اپنی بنیادی ترین ذمے داری ادا کرنے کے قابل نہیں رہے۔ سیدنا عمر کا ایک اصول تھا جو ان کے بہت بحرانی فیصلوں میں ظاہر ہوا کہ دین کے مطلوب پہ نظر گاڑے رکھو، اور اس مطلوب کو پورا کرنے کی صورتیں اگر کہیں بدلنی پڑیں تو بدل ڈالو۔ دین کا آئڈیل کسی ایک عملی صورت کا اسیر نہیں ہے۔ اس میں ایک ایسی کلیت ہے جو کسی مخصوص صورت میں محبوس اور محصور ہو جانے کے بجائے تعمیل کی ہیئتیں خود پیدا کرتی رہتی ہے۔ سیدنا عمرؓ کا جو اصل کارنامہ ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کے تہذیبی، قانونی اور سماجی اسٹرکچرکو بڑے بڑے زلزلوں سے بھی ہلنے نہیں دیا اور انسان کی بدلتی ہوئی دنیا میں اس عمارت کو اپنے قدم جمائے رکھنے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت تھی، وہ بھی فراہم کیں۔ یہ کارنامہ غیرِانبیا کی تاریخ میں کسی بھی شخصیت نے اپنی دینی روایت کے تحفظ اور توسیع کے لیے کبھی سر انجام نہیں دیا۔
اب ہم جس صورت حال میں گھرے ہیں، اس میں واحد علاج کے طور پر سیدنا عمرؓ کی اسی بصیرت کی ضرورت ہے۔ یعنی انسانوں میں عمل اور خیالات کی جتنی بھی قسمیں ہیں، ان سب کو ایک ہی حکمت سے چلانا کیونکہ جو دانائی قرآن سمجھنے میں درکار ہے، وہی دنیا کی تعمیر میں درکار ہے۔ یعنی دنیا کے سارے علوم اللہ کی معرفت سے پیدا ہوں اور اللہ کی معرفت کی فراہمی پہ تمام ہوں۔ دنیا پر سیدنا عمرؓ جیسی انفسی اور آفاقی گرفت کے چھوٹنے ہی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم اس حدیث مبارکہ کا مصداق بنے ہوئے ہیں کہ ایک وقت آئے گا کہ کفار تم سے کھیلیں گے۔ اگر ہم سیدنا عمرؓ کے منہجِ حکمت کی وراثت کا حق ادا کرنے کے لائق رہتے، اور آنجناب کی بے مثل بصیرت اور فراست کی پیروی کرنے کے قابل ہوتے تو یہ نوبت نہ آتی۔ اٹل قانون اور متغیر حالات کے درمیان تعلق کو زندہ اور مؤثر حالت میں تسلسل اور تنوع کے ساتھ برقرار رکھنے کی فاروقی روایت شریعت، فہمِ شریعت اور تعمیل ِ شریعت کے لمبے سفر میں جیسی محفوظ اور حتمی رہنمائی کر سکتی ہے، ہم نے اّس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔
محیطِ ختمِ رسالت ترے گہر پہ سلام
عمر پہ سلام
(2)
اللہ کے لیے وقت نکالیں۔ موجودہ دور کے فتنوں میں سے ایک بڑا فتنہ مصروفیت کا ہے۔ ایک زمانے میں شیطان کاہلی سکھاتا تھا، اب مصروفیت کی تعلیم دیتا ہے۔ اب ہر آدمی بہت مصروف ہے، اور وہ اپنے آپ کو مصروف کہنے میں جھوٹا نہیں ہے۔ موجودہ دروبست سے نکال کر دیکھا جائے تو بھائی، مصروفیت کوئی بری چیز نہیں ہے۔ مصروف آدمی وقت کے ساتھ ایک نتیجہ خیز تخلیقی اور اخلاقی ہم آہنگی اور ہم قدمی پیدا کرلیتا ہے۔ وہ اپنے امکانات کو عمل میں ڈھالنے اور ان کی تاثیر کو نفس سے دنیا تک توسیع دینے کا کام کرتا ہے۔ اس کے علاوہ مصروفیت میں یہ برکت بھی ہے کہ مصروف آدمی خود اپنے آپ سے بار بار آزاد ہوتے رہنے کے تجربے سے گزرتا رہتا ہے۔ اتنی بڑی اور ایسی مسلسل آزادی بھلا کسی کو دْنیا اور خواہشات کی رسّیوں سے بنے ہوئے جال میں کیسے پھنسنے دے گی؟ ظاہر ہے کہ ہرگز نہیں۔ اللہ سے وقت بچانا بخل ہے، بے حمیتی ہے! وقت کے بارے میں اپنے تصور کو بدلیے۔ رائج الوقت تصور یہ ہے کہ وقت کو کام میں لا کر ہم اپنی دنیا اچھی بنا سکتے ہیں اور اسے ضائع کر دیا تو ہماری دنیا میں خرابی اور بدحالی داخل ہو جائے گی۔ یعنی وقت کا سارا مصرف اُخروی مفادات سے لا تعلق ہو کر محض دنیاوی ہو چکا ہے۔ ہماری دنیا طلبی اور خود غرضی نے ہمیں تو پستی میں دھکیل ہی دیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وقت کو بھی گراوٹ کی انتہا پر پھینک دیا۔ وقت انسان سے زیادہ پھیلاؤ رکھتا ہے، اس کا کائناتی شکوٰہ اتنا تہ دار اور جامع المراتب ہے کہ وہم بھی اّس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ اللہ کے نظامِ قدرت کی اس سب سے طاقت ور اور ہمہ گیر نشانی کو میں نے اپنے گھٹیا پن کی نذر کر دیا۔ گویا بْراق پر خچر کی لگام کس دی۔ وقت کے بارے میں صحیح تصور یہ ہے کہ یہ ایک حال سے دوسرے حال تک پہنچاتا ہے اور اِس کی حرکت کا رخ خلق سے حق کی طرف ہے، ابدیت کی جانب ہے اور آخرت کے رخ پر ہے۔ اسے محض دنیا اور دنیاوی زندگی تک محدود کر دو گے تو ممکن ہے کہ تمہاری دنیا تو تمہارے تصور کے مطابق آرام دہ ہو جائے لیکن یاد رکھنا یہ آرام اللہ سے دوری، ابدی خسارے اور اُخروی اذیت کو تمہاری نظر سے اوجھل رکھنے والا ایک رنگین پردہ ہے، اور کچھ نہیں۔ کیا ہمیں نہیں لگتا کہ وقت اپنے ہر ہر لمحے میں محض ایک حرکت ہے جو اللہ کے قرب کا راستہ بھی طے کروا سکتی ہے اور اُس سے دوری کے پاتال میں بھی لے جا سکتی ہے۔ تو بھائی وقت کی قدر کرو اور اسے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مفید بناؤ اور اس سواری کا رخ غلط نہ ہونے دو ورنہ یاد رکھنا کہ اس گھوڑے کے سم جہنم کی آگ سے بھی نہیں پگھلتے اور یہ اپنے سوار کو ہاویہ تک بھی لے جا سکتا ہے۔ کون کہتا ہے کہ اپنے وقت کو اپنی دنیا کے لیے مفید نہ بناؤ۔ ضرور بناؤ مگر اخروی مفاد کو دنیاوی فائدوں پر حتمی ترجیح دینے کی عادت ڈالو۔ دنیا اللہ کی نعمتوں کا ایک گھر ہے، ان نعمتوں سے فیض یاب ہونے کی کوشش نہ کرنا یقینا ناشکری ہے۔ شکر گزار دل کے ساتھ جسم کو راحت پہنچاؤ تاکہ جنت کی کشش میں اور اضافہ ہو جائے۔ وہ دنیاوی فلاح بہت مبارک ہے جو اخروی فلاح کا مشتاق بنا دے، جنت کی طلب بڑھا دے اور اللہ سے ملاقات کی تمنا کو تمام خواہشات پر غالب کر دے۔ ان شاء اللہ یہ سب کچھ ہو سکتا ہے بس وقت کو اچھے مقاصد کے لیے استعمال کرنا سیکھ لو۔
(3)
اس وقت حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ مغرب واحد تہذیبی معیار بنتا جا رہا ہے۔ اس کو چاہے مجبوری کا نام دے دیجیے لیکن صورتِ حال کچھ ایسی ہی ہے کہ اب جو موضوع بھی مغرب کے مقابلے میں تیاری کے لیے مفید نہیں، وہ بے کار ہے۔ ہمیں اپنی اخلاقی اقدار کا احیا، یعنی خلاقی کے ساتھ احیا کرنا ہے، علمی سربلندی کا سامان کرنا ہے اور قوت حاصل کرنی ہے۔ انہی تین بنیادوں پر تہذیبوں کا دارومدار ہوتا ہے۔ ہم نے ان تین ستونوں کو دوبارہ تعمیر کرنا ہے، درست ترتیب کے ساتھ۔ اور وہ درست ترتیب یہ ہو گی کہ پہلا ستون اخلاق کا بنے گا، دوسرا ستون علم کا اور تیسرا قوّت کا بنے گا۔ اپنے اخلاق کو بانجھ نہ ہونے دو، علم کو خیالی اور قیاسی نہ رہنے دو، اسے خوابناکی کی دھند میں نہ چھوڑو اور طاقت کو اخلاق اور علم کے محافظ کے طور پر حاصل کر کے محفوظ رکھو۔ کیونکہ دنیا کا ہر علم اپنے پھیلاؤ میں طاقت کا محتاج ہے۔ ہمیں اپنی بقا اور ترقی کے لیے انسان اور تہذیب کے بارے میں ذرا گہرائی کے ساتھ جاننا چاہیے کہ انسانی نفس کی ساخت کیا ہے اور تہذیب کی بناوٹ کیسی ہوتی ہے۔ نفسِ انسانی اور تہذیب کا ایک فطری نظامِ تشکیل ہے جس سے غافل رہ کر یا جسے نظر انداز کر کے ہم اپنے دین کے مطلوبہ آدمی اور مطلوبہ تہذیب کا نہ صرف یہ کہ شعور نہیں حاصل کر سکتے بلکہ موجودہ حالات میں دینی آدمی اور دینی تہذیب کے قیام کی کوئی مؤثر اور قابلِ عمل کوشش بھی نہیں کر سکتے۔ ہماری موجودہ حالت یہ ہے کہ ہم جو چاہتے ہیں اّسے یا تو محض ایک نعرہ بنا کر مطمئن ہو جاتے ہیں یا پھر اّن خواہشات کو ناقابلِ عمل رومانویت کی دھند میں جھونک دیتے ہیں۔ ہمیں یہ شعور اور احساس پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ اپنے دین کے مطلوبہ آدمی کو اّس کی انفرادی اور اجتماعی تفصیلات کے ساتھ پہلے تو ٹھیک سے سمجھیں اور پھر قطعاً نا موافق حالات میں اّس کے لیے کم ازکم اتنی جگہ نکالنے کی علمی اور عملی تدابیر کریں کہ دنیا کو یہ دکھایا جا سکے کہ اسلام کا تصورِ انسان اور تصورِ زندگی عملی صورت میں اس طرح کا ہوتا ہے۔
ہم یہ باتیں کوئی تحریک چلانے کی نیت سے نہیں بلکہ شعور کی بیداری اور احساس کی زندگی کے لیے کر رہے ہیں۔