بتان وہم وگماں

296

’’میرے پاس گیراج میں دنیا کی سب سے مہنگی برانڈ کی کار ہے لیکن اب میں وہیل چیئر پر سفر کرتی ہوں۔
میرا گھر مختلف ڈیزائنز کے کپڑوں جوتوں اور قیمتی سامان سے بھراہوا ہے لیکن میرا جسم اسپتال کی فراہم کردہ ایک چھوٹی سی چادر میں لپٹا ہے۔
میرے بینک اکائونٹ میں بڑی رقم ہے لیکن اب اس رقم سے مجھے کوئی فائدہ نہیں۔
میرا گھر محل کی طرح ہے لیکن میں اسپتال میں ڈبل سائز کے بستر پر پڑی ہوں۔
میں ایک فائیو اسٹار ہوٹل سے دوسرے فائیو اسٹار ہوٹل میں جاسکتی ہوں لیکن اب میں اسپتال میں ایک لیب سے دوسری لیب میں جاتے ہوئے وقت گزارتی ہوں۔
میں نے سیکڑوں لوگوں کو آٹوگراف دیے آج ڈاکٹر کی تحریر میرا آٹوگراف ہے۔
بالوں کو سجانے کے لیے میرے پاس سات بیوٹیشن تھیں آج میرے سر پر ایک بال تک نہیں ہے۔
نجی جیٹ میں، میں جہاں چاہتی تھی اُڑ جاتی تھی لیکن اب مجھے اسپتال کے برآمدے میں جانے کے لیے دو افراد کی مدد کی ضرورت ہے۔
میں اعلیٰ ترین کھانوں سے لُطف اندوز ہوتی رہی لیکن اب میری خوراک دن میں دو گولیاں اور رات کو نمکین پانی کے چند قطرے ہیں۔
یہ گھر، یہ کار، یہ جیٹ، یہ فرنیچر، بہت سارے بینک اکاؤنٹس، اتنی ساکھ اور شہرت ان میں سے کچھ میرے کام کا نہیں رہا، ان میں سے کوئی چیز مجھے اب کوئی راحت نہیں دے سکتی۔
اب مجھے پتا چلا لوگوں کو راحت پہنچانا اور اُن کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنا ہی اصل زندگی ہے۔
اور آخری بات!! موت کے سوا کچھ حقیقت نہیں‘‘۔
یہ سطریںدنیا کی مشہور ترین فیشن ڈیزائنر اور مصنف کرسڈا روڈ ریگز نے کینسر کے مرض میں مبتلاہونے کے بعد اپنے انتقال سے چند روز پہلے لکھی تھیں۔ اقبال، شاعر مشرق علامہ اقبال نے اسی بات کو دو مصرعوں میں یوں بیان کیا ہے:
یہ مال ودولت دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بتان وہم وگماں، لا الہ الا اللہ
ہم ساری زندگی مال ودولت، رشتوں اور تعلقات کے تعاقب میں رہتے ہیں، ان کے پیچھے بھا گتے رہتے ہیں، ان پر انحصار کرتے ہیں، فخر کرتے ہیں، انہیں ضروری بلکہ نا گزیر سمجھتے ہیں۔ احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ محض وہم اور خیال ہیں۔ اصل چیز خدا شناسی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی وحدانیت پر اعتماد واعتبار ہے۔ تب اس حقیقت کا جو موت کے وقت محسوس ہوتی ہے زندگی ہی میں ادراک ہوجاتا ہے۔ نفسانی خواہشات انسان کو اس مرکز سے دور کردیتی ہیں۔ خواہشات کی تکمیل اس کی زندگی کا مرکز ومحور بن جاتی ہیں۔ حرص وہوس کے ایک دریا کے پار اترتا ہے تو کئی مزید دریا اس کے منتظر ہوتے ہیں۔ حرص وہوس کے بت سینے کو پناہ گاہ بنا لیتے ہیں انسان جانے انجانے جن کی پرستش کرتا رہتا ہے۔ قلب بت خانہ بن جاتا ہے۔ موت کے وقت جب یہ بت ایک ایک کرکے ٹوٹتے ہیں تب نور الٰہی راستہ پاتا ہے اور انسان پر منکشف ہوتا ہے یہ سب تو وہم وگمان تھا۔
گزشتہ دنوں نامور بھارتی اداکار عرفان خان بھی کینسر میں انتقال کر گئے۔ عرفان خان جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان کی آنکھیں ڈائیلاگ بولتی ہیں۔ ان کا کمال یہ تھا کہ اگر پوری فلم میں ایک ڈائیلاگ بھی نہ بولیں تب بھی آنکھوں سے پوری کہانی سمجھا سکتے تھے اور فلم سپرہٹ۔ ان کا ہرکردار لازوال تھا۔ اس منفرد اداکار کو بیماری بھی ایسی منفرد لگی جو لاکھوں میں کسی ایک کو لگتی ہے۔ مرنے سے پہلے اس نے اپنے ایک دوست کو خط لکھا۔ خط کیا تھا زندگی کی حقیقت اور اس کی بے معنویت کو دل چیر کر بیان کیا گیا تھا۔ خط کا عنوان تھا ’’بے ثباتی ہی ثبات ہے‘‘ خط کا ابتدائی حصہ ملا حظہ فرمائیے:
’’کچھ عرصہ قبل معلوم ہوا کہ میں نیورو اینڈوکرن کینسر (neuroendocrine cancer) میں مبتلا ہوں۔
میرے ذہن کی لغت میں یہ ایک بالکل نیا نام تھا۔ مزید معلوم ہوا کہ یہ بیماری ہی نایاب ہے، یعنی کم معلومات اور زیادہ خدشات اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ گویا میں اس ‘Trial and Error’ کھیل کا حصہ بن چکا تھا۔
میں تو کسی اور سمت گامزن تھا۔ ایک تیز رفتار ریل پر سوار۔۔۔ جس میں میرے پاس خوابوں، توقعات، منصوبوں، خواہشوں جیسا سامان تھا۔ لیکن اچانک ٹی سی نے پیچھے سے آکر میرا کاندھا تھپتھپا کر کہا:
’’آپ کی منزل قریب آ چکی ہے، اترنے کی تیاری کیجیے!‘‘۔
میں بوکھلا سا گیا، میری سمجھ میں کچھ نہ آیا؛
’’نہیں نہیں… ابھی میرا اسٹیشن نہیں آیا!‘‘۔
’’نہیں، اس ریل کا یہی اصول ہے، اگلے اسٹیشن پر ہی اترنا ہوگا!‘‘۔
اور پھراسی لمحے مجھے اچانک احساس ہوا کہ ہم کسی بے وزن کارک کی طرح انجان سمندر میں بے سمت لہروں پر بہہ رہے ہیں، اس غلط فہمی میں کہ ہم ان لہروں پر مکمل اختیار رکھتے ہیں‘‘۔
تخلیق کاروں اور فنکاروں ہی نے نہیں بڑے بڑے فاتحین اور طاقتور حکمرانوں نے بھی موت کے ارد گرد پھیلے ہوئے غبار میں زندگی کی معنویت کا اظہار کیا ہے۔ سکندر اعظم سے ایک قصہ منسوب ہے جب وہ قریب المرگ تھا اور اس پر غشی کے دورے پڑ رہے تھے تو اس نے اپنے جرنیلوں کو یہ وصیت کی کہ جب وہ مر جائے تو اس کا جنازہ قبرستان تک اس صورت میں لے جایا جائے کہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے دکھائی دیں اور اس کے گھر سے قبرستان تک کے راستے میں وہ تمام سونا ہیرے اور زیورات بکھیر دیے جائیں جو اس نے مختلف فتوحات سے حاصل کیے اور یہ کہ اس کا جنازہ یونان کے ممتاز ترین اور قابل ترین معالج اٹھائیں جب اس کے جرنیلوں نے ان احکامات کے پیچھے پنہاں فلسفے کی سکندر اعظم سے وضاحت چاہی تو اس نے کہا کہ ’’جب عام لوگ میرے دونوں ہاتھوں کو کھلا دیکھیں گے تو وہ جان جائیں گے کہ جس طرح میں اس دنیا میں خالی ہاتھ آیا اسی طرح خالی ہاتھ جارہا ہوں‘ جب وہ زیورات کو راستے میں پڑا دیکھیں گے تو ان کو معلوم ہوگا کہ یہ دولت کسی کے کام نہیں آتی اور جب وہ معالجوں کو میرے جنازے کو کندھا دیتے دیکھیں گے تو ان کو پتا چل جائے گا کہ موت سے بہترین معالج بھی انسان کو نہیں بچا سکتے‘‘۔ ہم خواہشوں اور آرزئوں کے شہردل میں بسائے زندگی بسر کرتے ہیں۔ سیدنا علی ؓ فرماتے ہیں ’’دنیا ایک ڈھلتا ہوا سایہ ہے، سایہ میں انسان کو سکون ضرور ملتا ہے لیکن سایہ کو کبھی دوام نہیں ہوتا اور تھوڑی دیر میں اپنی بساط سمیٹ لیتا ہے اور مسافر پھر کسی دوسرے سکون کی تلاش میں حیران و سرگرداں ہوجاتا ہے‘‘۔ وہ سکون جس کی تلاش میں انسان تازندگی سرگرداں رہتا ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت میں ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی محبت اور اطاعت کے بغیر زندگی غلط رخ پر چلی جاتی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو اپنا محبوب بنا لیجیے دونوں جہان سکون آشنا ہوجائیں گے۔