تاجروں اور صنعت کاروں نے کہا ہے کہ حکومت تعاون کرے تو ملکی برآمدات 50 ارب ڈالر کرسکتے ہیں۔واضح رہے کہ وزیر اعظم کے مشیر عبدالرزاق داؤدنے دعویٰ کیا تھا کہ رواں مالی سال کے آخر تک ملک کی برآمدات 28ارب ڈالرز ہو جائے گی۔اس دعوے میں کتنی حقیقت ہے ؟ یہ جاننے کے لیے ’’جسارت ‘‘نے ملک بھر کے تاجروں اور صنعت کاروں سے ان کی رائے معلوم کی۔کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی ) کے صدر شارق ووہرا نے کہا کہ دنیا بھر میں ٹیکسائل کے بڑے بڑے آرڈرز موجود ہیںاور ان پر فوری توجہ کی ضرورت ہے،پاکستان کے برا ٓمد کنندگان 50ارب ڈالرز کی برآمدات کر سکتے ہیں لیکن حکومت کی سنجیدگی بھی ضروری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹیکسائل سیکٹر میں برآمدات کے وسیع امکانا ت ہیں، دنیا بھر سے نئے آرڈرز کی بھر مار ہے لیکن صنعتکار صنعتیں چلانے سے متعلق درپیش گمبھیر مسائل سے تنگ آچکے ہیں۔
شارق ووہرا نے نشاندہی کی کہ بجلی،گیس کی لوڈشیڈنگ ، تباہ حال انفرااسٹرکچر، پانی کی قلت، سیلز ٹیکس کی زائد شرح، ویلیو ایڈڈ ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، ودہولڈنگ ٹیکس، خام مال پر کسٹمز ڈیوٹیز، اضافی کسٹمز ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی کے علاہ مقامی اور صوبائی ٹیکسوں کی بھرمار کے باعث پہلے ہی صنعتوں کو زیادہ لاگت کا بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے، اس کے بعد صنعتوں کی پیداوار کی نگرانی کے لیے ڈیجیٹل مانیٹرنگ آلات اور وڈیو کیمرے بمعہ سینسرز نصب کرنے کا کہا گیاہے،مزید برآں قواعد و ضوابط اور پیچیدہ قوانین سے انڈسٹری میں نئی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔صدر کے سی سی آئی کا کہنا تھاکہ پاکستان میں انڈسٹری اب بھی ترقی کے مراحل میں ہیں اور اس طرح کے قواعد کی تعمیل اور پیداوار کی نگرانی کے لیے افسران کو مامور کرنے کے تنازعے سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہے،اس طرح کے قواعد لازمی طور پر ہراساں کرنے اور بدعنوانی کا باعث بنیں گے، ایس ایم ایز کے لیے نئے قواعد کی تعمیل کرنا خاص طور پر مشکل ہوگا جب ٹیکس کا پیچیدہ نظام ہو اور وسائل بھی محدود ہوں اورکورونا کے اثرات سے کاروباری اداروں کو بچانا پہلے ہی بہت مشکل ہو۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ فنانس بل 2020ء کے ذریعے ٹیکس قوانین میں ترامیم اور ایف بی آر کے جاری کردہ قواعد و ضوابط میں ترمیم کے نوٹیفکیشن اور ایس آر اوز ٹیکس دہندگان کو مزید نچوڑ کر رکھ دیں گے جو پہلے ہی ایک پیچیدہ اور جبری ٹیکس نظام کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔شارق ووہرا کے بقول ٹیکس امور کے ماہرین کے مشوروں اور ٹریڈ باڈیز کی تجاویز کے برخلاف بیوروکریسی تعمیل کو مشکل سے مشکل تر بناتی ہے جو ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے میں بڑی رکاوٹ کا سبب ہے
اگر صورتحال اسی طرح سے جاری رہی تو حکومت معیشت کو بہتر بنانے کی اپنی تمام تر کوششوں میں بری طرح ناکام ہو جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ممالک جو 60 اور 70کے عشرے میں پاکستان سے کم برآمدات کیا کر تے تھے وہ پاکستان سے بہت زیادہ برآمدات آسانی سے کر رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے ان کی حکومتیں سنجیدگی سے صنعتکاروں کے مسائل حل کر نے کی کوشش کر تی ہیں ،کراچی سائٹ کاعلاقہ ملک کا سب سے بڑا صنعتی ایریا ہے اور اگر حکومت بلاتعطل گیس، پانی،بجلی فراہم کرے اور انفرااسٹرکچر کی صورتحال کو فوری طور بہتر بنائے تو سائٹ صنعتی علاقے سے مجموعی ایکسپورٹس میں مزید30فیصدکا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔کراچی چمبرآف کامرس کے سربراہ کے مطابق ایک اور مسئلہ بہت دنوں سے حکومت کے سامنے رکھا جا رہا ہے کہ عالمی سطح پر بجلی،پانی وگیس پاکستان کے مقابلے میں سستی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں صنعتی پیداواری لاگت مسابقتی ممالک کی نسبت زیادہ ہے اورپاکستانی برآمد کنندگان ایکسپورٹ نہیں کرپاتے،ہماری صنعتیں عالمی مارکیٹ میں بھارت،بنگلا دیش اور سری لنکا کا مقابلہ نہیں کرپاتیں کیونکہ بھارت اور بنگلا دیش میں پاکستان سے بجلی اور گیس کی قیمت بہت کم ہے۔سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کے سینئرنائب صدر ریاض الدین، نائب صدر عبدالقادر بلوانی،عارف لاکھانی،طارق یوسف،سبکدوش چیئرمین سلیمان چائولہ،سلیم پاریکھ،فرحان اشرفی بھی جسارت کی اس گفتگو میں شامل ہو گئے ۔انہوں نے بتایا کہ سائٹ صنعتی علاقے کا انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے ،مرکزی روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیاہے،اگر حکومت نے مسائل حل نہیں کیے تو سائٹ کی انڈسٹریز بند ہوجائیں گی ۔عبدالہادی نے کہا کہ کراچی میں 5 زیروریٹیڈ سیکٹر کے لیے گیس کے نرخ786روپے سے بڑھا کر930روپے ایم ایم بی ٹی یو کردیے ہیں
جو ہمیں مقابلے کی فضا سے باہر نکالنے کے مترادف ہے،مشکل سے کراچی میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے اور اگر صنعتیں بند ہونے سے دوبارہ شہر کا امن متاثر ہوا تو سرمایہ باہر منتقل ہوجائے گا۔ سابق صدر کر اچی چیمبر زبیر موتی والا نے کہا کہ سندھ میں 2600 ملین معکب فٹ گیس پیدا ہوتی ہے جبکہ سندھ کی گیس کی طلب 1300 سے 1400 ملین معکب فٹ ہے ، سندھ کو اس کے حصے کی گیس نہیں دی جارہی ، جب گیس زیادہ سندھ سے پیدا ہورہی ہے تو آر ایل این جی کیوں دینے پر زور دیا جارہاہے۔زبیرموتی والا نے کہا کہ کراچی کو پنجاب کے مقابلے میں گیس مہنگی دی جارہی ہے، ایس ایس جی سی اور ایس این جی پی ایل 2کمپنیاں ہیں لیکن قانون الگ الگ ہے،ایس این جی پی ایل کے انڈسٹری کے لیے ریٹ ساڑھے 6 ڈالر ہیں توہمارے لیے کیوں نہیں ہیں،آرٹیکل158کے تحت سندھ کوگیس ملنی چاہیے، ہمیں ایل این جی کی کوئی ضرورت نہیں،گیس نہ ہونے سے صنعتکار کوئلے کے بوائلر لگا رہے ہیں۔انہوں نے تشویش ظاہر کی کہ جب سائٹ کو ابھی سے گیس پریشر میں کمی کا سامنا ہے تو سردیوں میں گیس بالکل ہی نہیں ملے گی جس سے انڈسٹری بند اور مزدور بے روزگار ہوجائیں گے۔زبیرموتی والا نے یہ بھی کہا کہ سائٹ کا پانی کا کوٹہ ساڑھے9ہزار ملین گیلن روزانہ ہے لیکن ہمیں ایک ہزار ملین گیلن پانی بھی دستیاب نہیں، حب سے سائٹ کو11کلومیٹر پانی کی لائن فوری طور پر ڈالی جائے ۔ جاوید بلوانی نے کہا کہ 15سال سے کے الیکٹرک کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے ،نجی شعبے میں آکر کے الیکٹرک 15سال میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ نہیں کرسکی ، دوسری جانب سڑکیں خراب ہونے سے مزدوروںکو ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں، کنکشن نہیں دیے جارہے اور صنعتیں ٹکڑوں میں تقسیم ہورہی ہیں۔کورنگی ایسوسی ایشن ٹریڈ اینڈ انڈسٹریز کے صدر سلیم الزماں کا کہنا تھا کہ برآمدات کی ساری ذمے دار صنعتکا روں پر ہے ، گرمیوں سے ہی گیس پریشر ز میں کمی ہو رہی ہے ،اس کی وجہ سے انڈسٹریاں بند ہورہی ہیں،برآمدی شپمنٹس وقت پر نہیں جا رہیں
جس کی وجہ سے خریدار ہاتھ سے نکل رہے ہیں اور اگر ایکسپورٹس نہ ہوئیں تو اس میں اضافہ کیسے ممکن ہے،اگر حکومت نے مسائل حل نہیں کیے تو اس کے نتیجے میں جاری برآمدات کا توازن بھی برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا،صنعتی علاقے میں بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے غیر ملکی خریدار صنعتی اداروں میں آنے کو تیار نہیں اور اگر وہ آجائے صنعتی علاقوں کی حالت دیکھ کر خریداری سے انکا رکردیتا ہے ۔صدر کاٹی سلیم الزماں نے کہا کہ کورنگی صنعتی علاقے کی ملکی معیشت کے لیے اہمیت ہے لیکن یہ علاقہ ہمیشہ مسائل سے دوچار رہتا ہے ، صنعتکاروں کے مسائل ہمیشہ اہم ہو تے جس کو حل کر دیا جائے تو برآمدات میں اضافہ ہو سکتاہے۔پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا کہ ملکی برآمدات میں کاٹن کو اہمت حاصل ہے، لاکھوں افراد کو روزگار اور 50 فیصد تک زرمبادلہ کمانے والے اس شعبے کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے،گزشتہ 5سال میں کپاس کے زیر کاشت رقبے میں14 فیصد کمی آ چکی ہے اور مزید کمی کا جاری ہے، اگر کپاس کی فصل پر فوری توجہ نہ دی گئی تو یہ برآمدات کو بٹھا دے گی۔ زاہد حسین نے کہا کہ گزشتہ فصل میں کپاس کی پیداوار میں کم از کم70 لاکھ گانٹھوں کی کمی ہوئی ہے ۔آئندہ کی فصل میں شارٹ فال مزید بڑھ جائے گا جبکہ سب سے بڑے برآمدی شعبے ٹیکسٹائل کو رواں رکھنے کے لیے کم از کم 6ارب ڈالر کا زرمبادلہ خرچ کرکے کپاس درآمد کرنا ہو گی، کپاس کو موسمیاتی تبدیلی ،بارشوںاور سیلاب نے بڑا نقصان پہنچایا جس پر کنٹرول ممکن نہیں مگر جعلی زرعی ادویات، غیرمعیاری کھاد اور غیر معیاری بیج کا سد باب ممکن ہے جس پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں کاشتکاروں کو مجموعی طور پر اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑ تا ہے ۔