خبریں آرہی ہیں کہ ٹماٹر سے بھرے ٹرک ایران سے پاکستان پہنچ گئے۔ 22 بحری جہاز 13 لاکھ 37 ہزار میٹرک ٹن گندم یوکرائن اور روس سے لے کر پاکستان آرہے ہیں۔ پیاز اور آلو سے لدے ٹرک افغانستان سے پاکستان کے بارڈر پر کھڑے ہیں۔ پاکستان جیسے زرعی ملک کے لیے یہ خبریں شرمناک ہیں جو گندم کی پیداوار میں دنیا میں آٹھواں بڑ املک ہے۔ 22 ملین ہیکڑز رقبے پر کاشت کاری کا عمل جاری رہتا ہے۔ نہروں کا معقول نظام موجود ہے۔ زرخیز زمین، خوشگوار موسم اور جفاکش کسان اس ملک کا خاصہ ہیں۔ اس سے بڑی بدانتظامی اور نااہلی ہو نہیں سکتی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ٹماٹر کی قیمت پچھلے سال بھی 300 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی اور قلت دورکرنے کے لیے ایران سے درآمد کیے گئے تھے۔ اس طرح پچھلے سال گندم کا بحران پیدا ہوچکا تھا جس میں پہلے حکومت کو یہ پٹی پڑھائی گئی تھی کہ گندم کا فاضل اسٹاک موجود ہے اور برآمد کردی گئی اس کے بعد جب ملک میں قلت ہوگئی اور آٹا پنجاب اور کے پی کے میں نایاب ہوگیا تو اسے درآمد کیا گیا۔ سال 2019ء میں یہ صورت حال ستمبر، اکتوبر میں پیدا ہوئی تھی اس سال بھی انہی مہینوں میں وہی قلت اور قیمتوں میں اضافے کا معاملہ عوام کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
دوسری طرف وزیراعظم عمران خان کے سلطان راہی جیسے بیانات کہ مہنگائی مافیا کو دیکھ لوں گا، شوگر ملز مافیا کو نہیں چھوڑوں گا، فلور ملز مافیا کو جیل میں ڈالوں گا۔ ان جوشیلے بیانات کے باوجود عوام دیکھ رہے ہیں کہ آٹا 40 روپے سے 70 روپے کلو ہوگیا، نان بائیوں نے نان 10 روپے سے 15 روپے کردیا۔ چینی 60 روپے فی کلو سے 110 روپے ہوگئی۔ دال مسور، معاش اور دال چنا کی قیمتیں اوپر چلی گئیں۔ دودھ اور دہی کے ریٹ میں 20 فی صد اضافہ ہوگیا۔ انڈے 100 روپے درجن سے 180 روپے درجن ہوگئے اور ابھی تک ان مافیاز بھی کا نام بار بار لیا جاتا ہے کسی کو سزا ہوئی ہو۔
اگر آپ گندم کی مثال لیں سال 2019-20 میں گندم کی پیداوار کا ہدف سرکاری سطح پر 27 ملین ٹن رکھا گیا تھا لیکن اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔ نہ کوئی منصوبہ بندی کی گئی۔ گندم کے کاشت کاروں کی مشکلات پر توجہ نہیں دی گئی۔ یہ دنیا کا اصول ہے کہ جب آپ کسی کام کے لیے کوئی ہدف مقرر کرتے ہیں تو اس کو حاصل کرنے کے لیے موثر اقدامات بھی کرتے ہیں۔ سرکاری افسروں نے ایک روٹین کا کام سمجھ کر اور 10 فی صد بڑھا کر ہدف طے کردیا اور اس کا اعلان کردیا۔ کابینہ کو صدر وزیراعظم کو اس کی بریفنگ بھی دے دی گئی۔ اب یہ متعلقہ وزرا کی ذمے داری ہے کہ اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ مثلاً پیداواری لاگت میں کمی کرائیں، بجلی اور گیس کے نرخوں میں سبسڈی کا انتظام کریں۔ کھاد اور بیجوں کی قیمتوں میں کمی کرائیں۔ گندم کی امدادی قیمت (Support Price) مناسب طے کرائی جائے اور اس کا جلد اعلان کیا جائے۔ پچھلے سال یہ ہوا کہ حکومت جس ریٹ پر کاشت کاروں سے کم گندم خرید رہی تھی اس سے زیادہ پر مارکیٹ میں خریدار موجود تھے۔ اس طرح کاشت کاروں کو مناسب نفع نہیں مل سکا۔ چناں چہ انہوں نے گندم کی پیداوار میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔ اس صورت حال کو دیکھ کر اس سال ماہ اپریل سے یہ خبریں آنا شروع ہوگئی تھیں کہ گندم کی پیداوار کا ہدف پورا نہیں ہوسکے گا اور سال 2020ء کے آخری سہ ماہی میں گندم کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود متعلقہ محکمے اور وزارتیں سوتی رہیں۔ گندم اور آٹے کی قلت بڑھتی گئی، جب کے پی کے اور پنجاب میں آٹے اور نان کی قیمتیں اتنی بڑھ گئیں کہ عوام چیخنے لگے اور تحریک انصاف کے عہدیداروں اور وزرا کو لعنت ملامت کرنے لگے تو پہلے سندھ حکومت پر اس کا الزام ڈالا گیا اور عوام کو تسلی دی گئی کہ جلد قلت دور ہوگئی لیکن جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو اب مہنگے داموں گندم درآمد کی جارہی ہے جس پر امپورٹ ڈیوٹی اور دوسرے ٹیکس معاف کردیے گئے لیکن یہ گندم جس پر ٹرانسپورٹیشن اور دوسرے اخراجات بھی ہوں گے کیا اس سے فلور ملز کو گندم سستی مل سکے گی یا دوسرے الفاظ میں عوام کو آٹا پرانی قیمت پر مل سکے گا۔ اس کا بہت کم امکان ہے۔
اس طرح شوگر ملز مالکان کے خلاف بھی تحقیقات جاری ہیں۔ چینی کی درآمد کا معاملہ بھی چل رہا ہے لیکن کیا چینی جو 110 روپے فی کلو پہنچ چکی ہے وہ اپنی پرانی قیمت یعنی 60 روپے فی کلو پر آجائے گی۔ یہی معاملہ ٹماٹر کا ہے۔ پچھلے سال بھی درآمد کے باوجود ٹماٹر کی قیمت کم نہیں ہوسکی تھی جب ملکی پیداوار مارکیٹ میں آئی تو قیمت کم ہوئی۔ چناں چہ ان مسائل کے حل کے لیے طویل مدت منصوبہ بندی، مختلف اور متعلقہ اداروں کا آپس میں موثر رابطہ اور ذخیرہ اندزوں کے خلاف سخت کارروائی ضروری ہے۔