وزیر اعظم زخموں پر نمک پاشی تو نہ کریں

285

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ ادارے قوم کو عزیز ہیں، قوم کو استحکام کی راہ پر ڈال دیا ہے اور قومی دولت کو لوٹنے والے صرف اور صرف این آر او کی تلاش میں ہیں جو میں ان کو کسی بھی صورت نہیں دوں گا۔ پوری قوم اس وقت جس اذیت کے دور سے گزر رہی ہے شاید اس کا احساس ابھی تک وزیر اعظم کو نہیں ہو سکا ہے اس لیے یہ وہی پرانا راگ الاپے جا رہے ہیں کہ وہ ملک کی دولت لوٹنے والوں کو کسی صورت نہیں بخشیں گے، چوروں ڈاکوؤں کو کسی بھی صورت کوئی چھوٹ نہیں دیں گے۔ اس حوالے سے اگر ان کی گزشتہ 27 ماہ کی کارکردگی دیکھی جائے تو وہ نفی سے بھی نجانے کتنے درجے نیچے ہے کیونکہ اب تک نہ تو وہ، ان سے ایک پائی وصول کر پائے اور نہ ہی کسی بھی قسم کی عدالت سے ان پر لگائے گئے الزامات کی تصدیق کر وا سکے۔ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ نہ تو کوئی چور جیل میں ہے اور نہ ہی کوئی لٹیرا مع ثبوت گرفت میں آ سکا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جن کو وہ چور کہہ رہے ہیں ان سب نے نہ صرف پورے ملک میں ان کے خلاف چور چور کا شور ڈالا ہوا ہے بلکہ وہ نہایت طمطراق کے ساتھ ریلیاں، جلوس اور جلسے کرتے پھر رہے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ وہ چور، ڈاکو اور لٹیرے ہیں یا نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا عوام ان کو ایسا سمجھنے کے لیے تیار ہیں؟۔ ماضی میں بھی جن جن کو چور، ڈاکو، لٹیرا اور غدار جیسے ناموں سے پکارا گیا عوام نے ان کو ہمیشہ ووٹوں کے ذریعے اپنا رہبر و رہنما بنا کر پیش کیا۔
حکومت پاکستان کی نظروں میں ماضی کا سب سے بڑا غدار شیخ مجیب الرحمن تھا لیکن جتنا بڑا وہ غدار تھا اتنی ہی زیادہ اکثریتی ووٹوں سے کامیابی اس کے حصے میں آئی تھی۔ پوری قوم کو یہ بات بھی بہت اچھی طرح یاد ہے کہ ’’تم اْدھر ہم اِدھر‘‘ کا خالص باغیانہ نعرہ لگانے والے اصل غدار کو اس وقت تختہ اقتدار پر بیٹھے جنرل یحییٰ خان نے باقی ماندہ پاکستان حوالے کر دیا تھا جس کی اسمبلی کی نشستیں شیخ مجیب کے مقابلے میں 100 سے بھی کم تھیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ کوئی غدار کہلاتا ہے یا باغیانہ نعرہ بلند کرتا ہے تو وہ غدار و باغی ہے یا نہیں، غور طلب بات یہ ہے کہ کیا قوم کسی بھی رہنما یا اس کی پارٹی پر لگائے گئے الزامات کو تسلیم کرتی ہے یا ہر الزام کو رد کرتے ہوئے اسے رہنما مان کر اس کی خاطر ہر قسم کی قربانی دیتی نظر آتی ہے۔
وہی بھٹو جس کو قتل کے ایک مقدمے کا سہارا لیکر تختہ دار پر کھینچا گیا، کیا اس کی محبت کو لوگوں کے دل و دماغ سے نکالا جا سکا۔ کیا اس کی بیٹی بے نظیر اسی کی محبت کے نتیجے میں دو بار وزیر اعظم نہیں بنا ئی گئی، کیا بے نظیر کے بعد پی پی ختم ہو گئی، کیا تیسری بار پی پی کو بھٹو کی محبت کی وجہ سے اقتدار نہیں ملا، کیا سندھ آج تک اس کا دیوانہ نہیں۔ اسی طرح پاکستان میں جس جس کو بھی اداروں یا اس وقت کی حکومت نے ملک دشمن قرار دیکر دبانے کی کوشش کی، کیا عوام نے اس دباؤ کو قبول کیا۔ جمہوریت کی تعریف ہی یہی ہے کہ وہ ’’عوام کی، عوام سے اور عوام کے لیے‘‘ ہوتی ہے۔ جب ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو پھر دوسری، تیسری یا چوتھی قوت یا ادارے کو دنیا اور پاکستان کا کون سا قانون اجازت دیتا ہے کہ وہ عوام کی حکومت کو عوام کی خدمت سے روک سکے۔
سوال یہ نہیں کہ ہمارا عدالتی نظام درست ہے یا نہیں سوال یہ ہے کہ اس نظام کو درست کون کرے گا۔ سوال یہ نہیں کہ کون غدار ہے اور کون لٹیرا، سوال یہ ہے کہ جمہور پھر بھی ان ہی کو نجات دہندہ تسلیم کریں تو جمہوریت کا اصول اور قانون کیا کہتا ہے۔ اگر جمہور کسی ڈاکو کو ’’سلطانہ‘‘ سمجھے اور پھولن دیوی کو اپنی نمائندگی کا حق دے، تو پھر ضروری ہے کہ جمہور کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے سلطانہ ڈاکو اور پھولن دیوی کی کامیابی کو آئینی مدت پوری کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ قوم کو یہ علم ہو سکے کہ واقعی وہ سلطانہ اور دیوی ہیں یا صرف ڈاکو۔
وزیر اعظم صاحب! ادارے واقعی قوم کو عزیز ہیں اسی لیے عوام آپ کی حکومت سے مایوس ہونے کے بعد اب اداروں ہی کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ آپ اداروں کی جانب سے فکر مند نہ ہوں اس لیے کہ اداروں نے نہیں آپ کو عوام نے منتخب کیا ہے۔ کیا آپ نہیں سمجھ رہے اس سیاسی دھما چوکڑی کی وجہ سے عوام کس بری طرح دل شکستہ ہو کر ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں اس پر آپ کے یہ دعوے کہ آپ لٹیروں کو نہیں چھوڑیں گے اور ہم نے ملک کو استحکام کی شاہراہ پر ڈال دیا ہے، زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ خدارا عوام کے دکھوں اور رستے زخموں کا ادراک کریں اور اپنے سارے پرانے دعوں سے اجتناب کرتے ہوئے انہیں مہنگائی کے نیپام بموں سے بچائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ پریشان حال عوام سارے سلطانہ ڈاکوؤں اور پھولن دیویوں کو اپنا امام و نجات دہندہ سمجھ بیٹھیں۔