سعودی عرب، متحدہ عرب امارا ت اور بحرین کی جانب سے قطر پر حملے کی سازش کے انکشاف کے بعد عرب سیاست میں ایک مرتبہ پھر ’’ترکی‘‘ کو اہمیت حاصل ہو رہی ہے جس کی شروعات عرب ملکوں نے از خود کی۔ ترکی کی افواج اور دیگر حربی ساز و سامان کو قطر لانے سے کوئی نہیں روک سکتا اور اگر ’’سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے قطر پر حملے کی کوشش کی گئی تو خطے میں بڑی جنگ کا خدشہ ہے۔ ترکی کے روس سے دفاعی ’’میزائل S-400 کی وصولی کے اعلان پر ناٹو اور متحدہ عرب امارات کے اتحاد یوں نے ’’تشویش‘‘ کا اظہار کیا ہے۔
قطر نے ترکی کو بتایا تھا کہ اس کے خفیہ اداروں نے رپورٹ دی ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین قطر پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔ خیال رہے کہ 5 جون 2017ء کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کویت، بحرین اور مصر نے قطر سے دہشت گردوں کی مدد کے الزام میں سفارتی تعلقات ختم کردیے تھے۔ سعودی عرب نے قطر سے ملنے والی اپنی زمینی سرحد بھی بندکردی اور قطر کے شہریوں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ ان حالات میں عرب ممالک میں تنازع بڑھ جانے کے بعد انقرہ نے دوحا کی کھلم کھلا حمایت بھی کی۔ بعد ازاں سعودی عرب اور اتحادیوں نے 23 جون 2017ء کو قطر کو روابط بحال کرنے کے لیے مذاکرات کی پیش کش کرتے ہوئے 13 شرائط کی فہرست تھمادی۔ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے 25 جون 2017ء کو سعودی عرب اور اتحادیوں کی شرائط کو غیر حقیقی قرار دیتے ہوئے غیرمشروط مذاکرات پر رضامندی ظاہر کی لیکن کامیابی نہیں ہو سکی۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ ’’ترکی‘‘ کی جانب سے قطر کو دفاعی مدد کرنے بعد قطر پر حملہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارا ت اور بحرین کے لیے ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب نے لابنگ کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ العربیہ ٹی وی کو ایک انٹرویو میں امریکا میں سعودی عرب کے سابق سفیر اور انٹیلی جنس کے سابق سربراہ شہزادہ بندر بن سلطان نے کہا ہے کہ فلسطینی کاذ ایک جائز اور مضبوط کیس ہے لیکن اس کا وکیل ناکام اور کمزور ہے جبکہ اسرائیلی کاذ ایک غیرمنصفانہ کیس ہے مگر اس کا وکیل کامیاب ہے۔ فلسطینی خود دھڑوں میں منقسم ہیں۔ بندر بن سلطان نے کہا کہ ہم نے یاسر عرفات کو بغداد میں دیکھا، وہ صدام حسین کے ساتھ چہک رہے تھے اور انہیں کویت پر قبضے کی مبارک باد دے رہے تھے۔ ان کے اس رویہ سے خلیجی ممالک کے شہریوں اور بالخصوص کویتی بھائیوں کو بہت تکلیف ہوئی۔ اس کے باوجود
سعودی عرب نے فلسطینی قیادت کے خلاف کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا تھا، فلسطینیوں کی صدام حسین کی تصاویر کے ساتھ خوشی منانے کی تصاویر سامنے آئیں اس وقت بھی سعودی عرب نے خاموشی اختیار کی حالانکہ وہ خلیج جنگ کے دوران ریاض پر عراقی راکٹ گرنے پر خوشیاں منا رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی قیادت تاریخی طور پر ناکام رہی ہے اور اس کی ناکامیوں کا یہ سفر ابھی تک جاری ہے۔ میں نے حالیہ دنوں میں فلسطینی قیادت سے جو کچھ سنا ہے، وہ فی الواقع بہت ہی تکلیف دہ اور افسوس ناک ہے۔ ان کا خلیجی ریاستوں کی قیادت کے بارے میں رویہ نا قابل قبول ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی صدر محمود عباس سمیت فلسطینی لیڈروں نے متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ گزشتہ ماہ طے ہونے والے امن معاہدے کو فلسطینی عوام کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا تھا۔ سعودی شہزادے نے فلسطین پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین معاہدے پر فلسطین کی تنقید بلاجواز ہے۔
شہزادہ بندر نے کہا کہ فلسطینی رہنما ریاض اور دیگر خلیجی ممالک کی نسبت ایران اور ترکی کے منصوبے پر عمل کر رہے ہیں جیسا کہ اُوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ شہزادہ بندر خود بھی امر یکا میں سفیر رہے ہیں اور ان کو بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ امریکا اور ’’اسرائیل کی ڈیل مسلمانوں کے تابوت میں کیل ٹھوکنے کے لیے ہوتی ہے۔ 72برسوں میں اسرائیل کے ساتھ عربوں کی ہر ڈیل نے اسرائیل کو مضبوط اور مسلمانوں کو کمزور سے کمزور تر کیا ہے۔ تازہ ترین ڈیل میں بھی امریکا کی جانب سے اس بات کا اعلان کیا گیا ہے خطے میں اسرائیل ہمیشہ ایک چودھری بن کر رہے گا۔
بندر بن سلطان کی بیٹی شہزادی ریما کا 2019ء سے واشنگٹن میں بطور سفیر تقرر اس بات کی بھی نشاندہی ہے کہ سعودی عرب نے اپنے اہم ترین حلیف اور سب سے بڑے اور اہم ملک میں جس شخصیت کا تقرر کیا ہے، وہ انتہائی سوچا سمجھا اقدام ہو گا۔
4ستمبر 2020 کو ہم نے اپنے آرٹیکل ’’وزیر اعظم ہنیہ کی فلسطین آمد، جہادیوں سے رابطے‘‘ میں لکھا تھا کہ: ’’اسرائیل عرب حکمرانوں کے لیے ایک خوف کی علامت بن چکا ہے۔ عرب حکمران وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے خوف کے سانپ کو زیادہ سے زیادہ اپنے اردگرد لپیٹ رہے ہیں۔ یہ صورت حال ان کو کبھی بھی آزادی سے نہ تو زندہ رہنے دے گی اور نہ سکون سے وہ مر سکیں گے‘‘۔
لیکن اب کسی کو کچھ نہیں چاہیے بلکہ اسرائیل عرب ممالک سیجنگ کی تیا ری میں مصروف نظر آرہا ہے۔ قبل ازیں ہم نے یہ بھی پڑھا کہ ’’امامِ کعبہ نے یہودیوں سے دوستی کا درس دے دیا ہے‘‘ اور اب بندر بن سلطان کی بھی یہی کوشش ہے کہ وہ اسرائیل کی حمایت میں لابنگ کا سلسلہ جاری رکھیں لیکن شاہ سلمان کا وہ کیا کریں گے۔