نفرت اور ہندوتوا بھارت کی معیشت کو ڈبو رہے ہیں

206

پتا نہیں دُنیا کو سکتہ ہوگیا ہے یا کوئی اور معاملہ ہے، بھارت اور اس کے وزیراعظم کو ہر معاملے میں کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ کشمیر میں ظلم اور انسانی حقوق کا معاملہ ہو یا خواتین کے غیر محفوظ ہونے یا اقلیت کے حقوق غضب کرنے کا دُنیا نے گویا اُسے کلین چٹ دے رکھی ہے یا آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ پچھلے سال بھارت میں خواتین نے گائے کے سر کے ماسک پہن کر عورتوں کے خلاف متشدد رویے پر احتجاج کیا کہ بھارت میں عورت زیادہ محفوظ ہے یا گائے؟؟ جب سے بھارت میں بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت آئی ہے گائے کے محافظ گروہ متحرک ہوئے، کتنے ہی مسلمان بزرگ اور نوجوان اُن کا شکار بنے، اسی طرح خواتین کی عزتوں کا معاملہ ہے، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں ہر پندرہ منٹ بعد ایک عورت کا ریپ ہورہا ہے۔ خواتین ایف آئی آر نہ کاٹنے، ملزم کی دھمکیوں اور حکومت ملزموں کی سرپرستی کے باعث خودکشی کررہی ہیں لیکن دنیا نے آنکھیں بند رکھی ہیں۔ یا وہ سو رہی ہے پھر بھارت میں سائنسی ایجادات کا معاملہ تو انتہائی حیران کن ہونے کے ساتھ مضحکہ خیز بھی ہے۔ کبھی وزیراعظم ہندوستان مودی اپنے خطاب میں دعویٰ کرتے ہیں کہ صدیوں قبل جینٹک سائنس کا آغاز بھارت میں ہوچکا تھا۔ اس کے ثبوت میں وہ اپنے گینش دیوتا کو پیش کرتے ہیں جن کا جسم انسان کا اور سر ہاتھی کا ہے۔ چناں چہ اُن کا کہنا ہے کہ زمانہ قدیم میں ہندوستان میں تبدیلی اِعضا کی سائنس اپنے عروج پر تھی۔ پھر پچھلے برسوں میں مستقل بنیادوں پر ہونے والی کانفرنس میں دو بھارتی سائنس دان دعویٰ کرتے ہیں کہ طیاروں کی ٹیکنالوجی کا آغاز قدیم ہندوستان میں ہوا تھا۔ اس کے لیے اُن کے مقالے کا عنوان تھا ’’قدیم ہندوستان میں ٹیکنالوجی‘‘ یہ مقالہ 2015ء کی سائنس کانفرنس میں پڑھا گیا۔
اسٹیم سیل ریسرچ کا کام امریکا میں ہوا لیکن گجرات کے اسکولوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتابوں کے مطابق ساری محنت ہندوستانی سائنس دانوں نے کی تھی۔ ان کتابوں کو لکھنے والے ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ ہیں۔ یہ اور اس طرح کے مضحکہ خیز دعویٰ کرنے والے اور لوگ بھی ہیں بلکہ بھارت میں سرکاری سطح پر یہ ہورہا ہے۔ حال ہی میں بھارت میں گائے کی فلاح وبہبود پر قائم سرکاری کمیشن کے چیئرمین نے گائے کے گوبر سے تیار موبائل چپ لانچ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس چپ سے موبائل فون کی تابکاری کافی حد تک کم ہوجاتی ہے۔ سرکاری ادارے کے چیئرمین ’’ڈاکٹر دلبھ بھائی‘‘ نے گوبر سے تیار چپ لانچ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ایک اینٹی ریڈی ایشن چپ ہے اگر آپ بیماریوں سے بچنا چاہتے ہیں تو اس کا استعمال کریں‘‘۔ جب میڈیا کے نمائندوں نے اُن سے پوچھا کہ کیا یہ جب لیبارٹری سے سرٹیفائیڈ ہے تو اُن کا کہنا تھا کہ یہ سرٹیفائیڈ تو نہیں البتہ ٹیسٹیڈ ہیں۔ اور یہ پانچ سو سے زیادہ گئو شالوں میں تیار کی جارہی ہیں۔ یہ بھارت میں پچاس سے سو روپے میں دستیاب ہیں بلکہ ایک شخص انہیں امریکا بھی برآمد کررہا ہے جہاں یہ فی چپ 10 ڈالر میں فروخت ہورہی ہے۔ شاید اسی لیے بھارت میں کچھ ہی دنوں پہلے بھارتیا جنتا پارٹی کے سینئر رکن اور مرکزی وزیر نے بھی ملک کی بڑھتی بے روزگاری کو ختم کرنے کے لیے ایسا ہی نسخہ پیش کیا تھا جب انہوں نے بیروزگاروں کو گائے کا گوبر اور پیشاب فروخت کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس مشورہ پر عمل کرکے موبائل چپ تو بنالی گئی۔ اب دیکھیے آگے آگے کیا بنایا جاتا ہے۔
ایک اور اہم استعمال بھی ڈاکٹر دلبھ بھائی نے اپنی کانفرنس میں مزید بتاتے ہوئے کہا کہ ’’پچھلے دنوں فلمی اداکار اکشے کمار کے بارے میں آپ نے سنا ہو گا کہ وہ گائے کا گوبر کھاتے اور پیشاب پیتے ہیں۔ آپ بھی کھا سکتے ہیں۔ یہ ایک دوا ہے۔ لیکن ہم نے اپنی سائنس بھلا دی ہے اب ہم ان پر تحقیقی کام کررہے ہیں‘‘۔
کورونا سے مقابلے کے لیے بھی بھارت میں اِسی نسخے کو کار آمد قرار دیا گیا۔ ’’آل انڈیا ہندو یونین‘‘ نے کورونا سے بچنے کے لیے اجتماعی طور پر اِسے پینے کی ایک پارٹی منعقد کی۔ کورونا سے نمٹنے کی بی جے پی کی یہ ترکیب کتنی کامیاب رہی راہول گاندھی بھارت کے اپوزیشن لیڈر اس کا پول کھولتے ہوئے کہتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان تک نے انڈیا کی نسبت کووڈ 19 کا بہتر مقابلہ کیا۔ اور نفرت اور قوم پرستی کی وجہ سے انڈیا کے جی ڈی پی میں تاریخی کمی ہوئی۔