وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کی سیاسی کارکردگی اور بیانات بتا رہے ہیں کہ وہ اسکول میں اچھے نمبروں میں پاس ہوتے رہے ہوں گے۔ اور اس کی گواہی ان کا رٹا رٹایا بیان دے رہا ہے۔ ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اپوزیشن جتنا چاہے احتجاج کرے ریلیاں نکالے مگر عمران خان کو نہیں نکال سکتے۔ ہم نے 126دن دھرنا دیا مگر ہمارے خواب دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ان کے ارشاد کے مطابق 126دن کے دھرنے میں موصوف نے ایک بھی ناغہ نہ کیا۔ شاید انہیں کسی نجومی کی یہ بات یاد رہی ہوگی کہ اگر گوشت کا ناغہ ختم کر دیا جائے تو حکومت کو آئے دن کی نحوست سے نجات مل جائے گی۔ سو شیخ رشید نے اسی خوف سے ناغہ ختم نہ کیا کہ وہ جو نحوست حکومت پر مسلط کرنا چاہتے ہیں دھرنا ختم کرنے سے ختم ہو جائے گی۔ شیخ رشید کا دعویٰ ہے کہ اپوزیشن کی احتجاج ریلیوں اور دھرنے سے عمران خان کی حکومت ختم نہیں ہو گی۔ بجا فرمایا شیخ صاحب وزیر اعظم عمران خان کی حکومت بھی بیوہ ہونے والی عورت کی طرح اپنی مدت پوری کرے گی۔ اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت 5سال تک عوام پر مسلط رہے گی۔ تاہم اس امکان کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ عمران خان کو یوسف رضا گیلانی بنایا جا سکتا ہے۔ اس لیے شیخ رشید کا یہ کہنا ہے کہ عمران خان کی حکومت کہیں نہیں جارہی۔ قیاس کے دائرے میں اودھم مچاتا دکھائی دے رہا ہے۔
سیاست امکان کے دائرے میں گھومتی ہے اور سیاسی مبصرین قیاس کے دائرے میں بیٹھ کر سیاسی تبصرے کرتے رہتے ہیں۔ قیاس کا تعلق قیافہ سے ہوتا ہے۔ سو قیاس کبھی پیش گوئی کے قالب میں ڈھل جاتا ہے۔ اور کبھی قیافہ نظر کا دھوکا بن جاتا ہے۔ ویسے شیخ رشید داد کے مستحق ہیں ان کا قیاس اور قیافہ ہمیشہ نظر کا فریب ہی ثابت ہوتا رہا ہے۔ مگر شاباش شیخ رشید کی ہمت پر کہ وہ کبھی اپنی ناکامی پر شرمندہ نہیں ہوتے۔ بس بیان کو چھوٹا بڑا کرتے رہتے ہیں۔ جب سے مسلم لیگ ن نے ان سے دامن چھڑایا ہے وہ اس کا دامن چاک کرنے سے باز نہیں آتے۔ شاید ان کی اس خصلت سے کچھ لوگ واقف تھے۔ اس لیے میاں نواز شریف کو یہ باور کرواتے رہے کہ شیخ رشید کو ن لیگ میں واپس لے لیا جائے۔ ورنہ… یہ تعفن پھیلاتا رہے گا۔ مگر میاں نواز شریف ایسے لوگوں کو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے۔ کمال ہے تاجر ہوتے ہوئے بھی نفع نقصان کی پروا نہیں کرتے۔ ہاں تو ہم شیخ رشید کے بیانات کی بات کر رہے تھے۔ پہلے وہ ٹی وی چینلوں پر بڑے جوش و خروش سے کہا کرتے تھے کہ مسلم لیگ ن کے 45رکن ِ اسمبلی تحریک انصاف کو رونق بخشنے والے ہیں۔ وہ بہت جلد تحریک انصاف میں عمران خان کو اپنا لیڈر تسلیم کر لیں گے۔ مگر 45رکن اسمبلی گھٹ کر 8 سے 16 رہ گئے ہیں۔
وفاق وزیر اطلاعات شبلی فراز نے اعلان کیا ہے کہ اپوزیشن اگر جلسہ گاہ بھرنے میں کامیاب ہو گئی تو وہ مستعفی ہو جائیں گے۔ جواباً کہا گیا تھا کہ شبلی فراز یہ بھی بتا دیں کہ بھرا ہوا جلسہ گاہ دیکھ کر کتنے منٹ میں استعفا دیں گے۔ شبلی فراز نے تو خاموشی ہی میں عافیت سمجھی مگر شیخ رشید اپنی زبان پر قابو نہ رکھ سکے۔ فرماتے ہیں کہ مسلم لیگ ن ایک نظر اپنی چارپائی کے نیچے ڈالے اور دیکھے کہ وہاں پر ان کے 8 سے 16رکن اسمبلی دو زانوں بیٹھے دکھائی دیں گے۔ ہم کسی بھی وقت انہیں چارپائی سے نکال کر ٹی وی چینل پر پیش کر دیں گے۔ شیخ رشید کے بیان سے تو ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ بہت جلد ٹی وی پر بیٹھ کر نام نہاد ارکان اسمبلی پر لعنت ملامت کر رہے ہوں گے ان کی غلط بیانی اور وعدہ خلافی کا رونا رو رہے ہوں گے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ ہوٹل کا بل شیخ رشید سے ادا کروانے کے لیے تحریک انصاف میں شمولیت کی خوشخبری سناتے رہتے ہیں۔ اور شیخ جی ٹی وی چینل پر اس خوشخبری کو سنا کر وزیر اعظم عمران خان سے داد و تحسین وصول کرتے رہتے ہیں۔
شیخ رشید کا نیا بیانیہ یہ ہے کہ عوام عمران خان سے نفرت نہیں کرتے۔ مہنگائی کا گلہ کرتے ہیں۔ کاش! موصوف میں اتنی سوجھ بوجھ ہوتی کہ وہ سمجھ سکتے کہ مہنگائی ناقابل برداشت ہو جائے تو عوام حکومت تبرا نہیں کرتے لعنت ملامت کرتے ہیں۔ شیخ رشید نے اس امکان کا اظہار بھی فرمایا ہے کہ ن لیگ پر پابندی لگ سکتی ہے۔ شیخ صاحب آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیاسی بیانات پر کوئی ایکشن نہیں لیا جا تا۔ وزیر اعظم عمران خان نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں نقی اجمل کو جو انٹرویو دیا تھا اس میں فوج کے بارے میں کیا کچھ کہا تھا۔ مگر ان پر الیکشن لڑنے پر پابندی نہیں لگی۔ پھر ن لیگ پر کیسے پابندی لگ سکتی ہے۔