خوش خوراک، خوش لباس، خوش مزاج۔ خوش کے سابقہ کے ساتھ مزید کچھ ایسے ہی مرکبات سے سجے جسارت کے مرحوم چیف ایڈیٹر محمود احمد مدنی کی وفات پر محترم اطہر ہاشمی کے مضمون کا آغاز ہوا۔ کراچی پریس کلب کے تعزیتی ریفرنس میں مرحوم ہاشمی صاحب کی تقریر بھی کچھ اسی طرح شروع ہوئی تھی یا ہاشمی صاحب نے وہی تحریر پڑھی تھی۔ استاد محترم اطہر ہاشمی کی ذات بھی خوش خوراکی کے سوا ان تمام صفات سے مرصع تھی۔ مرحوم مدنی صاحب بلند فشار خون اور ذیابیطس کے مریض تھے۔ گھر والے پرہیزی کھانا باندھ کر دیتے لیکن مدنی صاحب دفتر کے ساتھیوں کے ساتھ بد پرہیزی کرتے اور ڈھائی تین عشرے پہلے کے برنس روڈ سے آئے کھانے پر ہاتھ صاف کرنے سے نہیں چوکتے لیکن اطہر ہاشمی کو ہمیشہ خبروں کا تعاقب کرتے دو چار لقمے ہی لیتے دیکھا۔ البتہ چائے اور سگریٹ ان کے جیون ساتھی رہے۔ مرحوم استادِ محترم سے ہماری پہلی ملاقات سات مئی انیس سو اکانوے کو ہوئی۔ ہمیں یہ تاریخ اس لیے یاد ہے کہ ایف سی ایریا لیاقت آباد سے دفترِ جسارت جاتے ہوئے ہم جامع کلاتھ سے ذرا پہلے بس سے اْترے، اردو بازار سے ایک پاکٹ ڈکشنری خریدی، اس پر دستخط ثبت کیے اور تاریخ لکھی تھی۔ ان دنوں اخبارات میں ترجمہ کا چلن بہت تھا۔ دفتر میں نیوز ڈیسک پر بیٹھے تو دیکھا میزوں پر ڈکشنریاں اور لغات دستیاب تھیں۔ پھر پوری ڈیسک ہاشمی صاحب کی قیادت میں مجسم ڈکشنری تھی۔ رہنمائی اور اصلاح کی رَوِش بڑی پْختہ تھی۔ ہمارے لیے اس کی ابتدا کابینہ میں متوقع رد و بدل کی ایک خبر سے ہوئی۔ ہم نے ردوبدل کو مونث لکھا۔ ہاشمی صاحب نے مذکر بتایا اور اپنے موقف کی تائید میں کئی اشعار سنائے۔ ایک بار کسی رہنما کا زیادہ تلخ اور سخت جملہ کی سرْخی لگائی تو کہا ’’میاں! جملہ ان کا ہے لیکن سرخی تو آپ نے نکالی ہے‘‘۔ پھر کسی خبر میں ’’ہنوز‘‘ لکھ دیا گرفت کی اور بتایا کہ سادہ اور آسان الفاظ لکھیے۔ اصلاح کی فہرست طویل
ہے لیکن اچھے کی داد بھی خوب ملتی تھی۔ مثلاً پی پی دور میں جیالوں کو ملازمتیں دینے کی ایک خبر کی ہم نے سرخی جمائی ’’نوکریاں یا اندھے کی ریوڑیاں‘‘ چین میں دانتوں کے درد سے نجات کی سگریٹ کی خبرکی ہم نے سرخی لگائی ’’دردِ دنداں کْش سگریٹ‘‘ وائس چانسلرز کانفرنس کا ترجمہ ’’شیوخ الجامعات کا اجلاس‘‘ کیا تو خوب تحسین بھی کی۔ ہم نے مْسکِت اور میرٹھ کا غلط تلفظ کیا تو ہاشمی صاحب نے فوراً ٹوکا، ’’میاں! اس میں اتنا تشدد نہیں ہے‘‘۔ چند ماہ بعد عصمت چغتائی کے انتقال کی خبر آئی۔ انہوں نے مسلمان خاندان کا چشم و چراغ ہونے کے باوجود اپنا جسد خاکی جلانے کی وصیت کی تھی۔ ہاشمی صاحب نے سوال کیا ایک اور مسلمان نے ایسی ہی وصیت کی تھی۔ ہم نے کسی کو موقع دیے بغیر سب سے پہلے ن م راشد کا نام بتایا۔ ہاشمی صاحب نے کہا ’’میاں! پڑھ لکھ کر آئے ہو‘‘۔ حالانکہ اس میں ہمارا کوئی کمال نہ تھا۔ بس پندرہ سال پہلے اخبار میں ن م راشد کی موت کی خبر پڑھی تھی۔ اس کمرے میں ایک اور آواز خوب گونجتی تھی وہ تھی محمد اعظم گوندل کی۔ گوندل صاحب اپنے صفحے کی ذمے داریاں نبھانے کے ساتھ اداریے کی پرف ریڈنگ بھی کرتے تھے۔ اس دوران وہ ہرچند منٹ بعد با آواز بلند کوئی لفظ ہاشمی صاحب سے پوچھتے اور ہاشمی صاحب نہایت خوش دلی سے نہ صرف درست لفظ بتاتے بلکہ معنی اور مفہوم بھی سمجھا دیتے۔ ان دنوں اعظم گوندل انڈر ٹوینٹی ہی تھے۔ اس طرح وہ صحافت میں ہم سے سینئر اور عمر میں جونیئر ہیں۔
ہاشمی صاحب کی اصلاح، رہنمائی، حوصلہ افزائی اور داد و تحسین کی ان ہی صفات کی بنا پر ہمیں لکھنے کی ہمت ہوئی۔ ڈیسک پر فرصت کے اوقات میں کچھ لکھتے، کاٹ چھانٹ کے بعد دوبارہ صاف کرکے لکھتے، اس دوران مزید ترمیم و تنسیخ ہوجاتی، پھر فیئر کرتے، رات بارہ بجے اٹھتے وقت ہاشمی صاحب کو دیتے، وہ طویل اور تھکادینے والی ڈیوٹی کے اختتام پر ہمارے مضمون کو غور سے پڑھتے۔ اگلے دن ان کا ایک ہی جملہ ہوتا۔ ’’ارے میاں اس پر تو قلم لگانے کی ضرورت تک محسوس نہیں ہوئی‘‘۔ چند دن نہ لکھتے تو سوال کرتے ارے میاں وہ ’’خیراندیش‘‘ کو کیا ہوگیا؟ ہاشمی صاحب نے ہم سے شذرہ نویسی بھی کرائی۔ غرض ہر طرح سے آگے بڑھایا۔ ایک سال بعد جب ہم نے اعزازی کاپی کی استدعا کی تو اس پر از خود ہمارے اعزازیہ کا مسئلہ بھی لکھ دیا۔ یوں تیرہ ماہ بعد ہمیں جسارت سے پانچ سو روپے ماہانہ ملنا شروع ہوئے۔ اصلاح، رہنمائی، آگے بڑھانے کی سعی اور سگریٹ کی لنگر کی طرح تقسیم جیسی ہاشمی صاحب کی سخاوت سے تو سب ہی واقف ہیں۔ لیکن ان کی ایک دریا دلی سے برائے نام لوگ ہی آشنا ہوں گے، وہ ہے جسارت سے ملنے والی محدود تنخواہ کا ایک چوتھائی حاجت مندوں میں تقسیم کرنا۔ مرحوم صرف پچھتر فی صد تنخواہ ہی گھر پر اور بقیہ پچیس فی صد ضرورت مندوں کو دے دیتے۔ اس کام میں انہوں نے دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہونے کی شرط کا خاص اہتمام کیا۔ اللہ ان کی نیکیوں کو قبول کرے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
ہاشمی صاحب استغنا اور استقامت کا پیکر تھے۔ ایم کیو ایم کے عروج کے زمانے میں فیڈرل بی ایریا میں رہنا کڑی آزمائش سے کم نہ تھا۔ رات تین بجے دفترسے گھر پہنچتے تو گلی میں بیٹھے نوجوان ’’ٹھا‘‘ کے نعرے لگا کر خیرمقدم کرتے۔ ایک بار یوں بھی ہوا کہ اہلکار گلی میں آئے، ہاشمی صاحب سے بات چیت کے بعد واپس ہوگئے۔ اس کے بعد ان نوجوانوں نے ہاشمی صاحب پر طنز و استہزا کے نشتر چلانے چھوڑدیے لیکن ہاشمی صاحب کے قلم نے کبھی ان سے تو کیا کسی سے بھی کوئی رعایت نہ کی۔ اسلام اور پاکستان ہی ان کے حق و باطل کے پیمانے رہے۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
اس میں کوئی کلام نہیں کہ ہاشمی صاحب حقیقی عامل صحافیوں کے کارواں کے وہ میر تھے جس کی نگاہ ہمیشہ بلند، سخن دلنواز اور جاں پرسوز رہی۔ مرحوم سے آخری ملاقات عید الفطر کے چند دن بعد محترم معین کمالی کے ساتھ ان کے گھر پر ہوئی۔ ہمیشہ کی طرح اخبارات کا پلندہ، چائے کا کپ اور ایشٹرے میں گھرے ہوئے تھے۔ بات چیت کے دوران بیٹے نے شش عید کے روزوں کا تذکرہ کیا۔ عید الفطر کے بعد کے چھ روزوں کو ہم نے ہمیشہ سرسا عید سنا تھا۔ ہاشمی صاحب کی پہلی نسل کی طرف سے یہ ہماری پہلی اصلاح تھی۔ امید ہے یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ تحریر کے میدان میں مرحوم کی کاوشیں ہمہ جہت ہیں۔ بین السطور کے عنوان سے سنجیدہ مضامین کے علاوہ مختلف قلمی ناموں سے بھی ان کے مضامین کی فہرست طویل ہے۔ اس کے علاوہ زبان و بیان پر ان کے کالم ہیں۔ ان کی فکاہیہ تحاریر تکبیر میں بھی چھپتی رہی ہیں۔ ’’یاران بزلہ سنج‘‘ کی نشستوں میں بھی پڑھتے رہے۔ اس طرح ان کی تخلیقات مختلف عنوانات کے تحت کئی کتب کی متقاضی ہیں۔ ہاشمی صاحب کی وفات کے بعد ان کی شخصیت اور کام پر بھی بہت لکھا گیا اور ملک کے بہت بڑے لکھاریوں نے ان پر بہت کچھ لکھا۔ اس سب کو جمع کرکے سلیقہ سے شائع کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ ہاشمی صاحب کے شاگردوں اور عقیدت مندوں کا وسیع حلقہ ہی اس سب کے لیے کافی ہے۔ اس مقصد کے لیے میری طرف سے ہرطرح کا تعاون ہر وقت حاضر ہے۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
(ثاقب لکھنوی)