ہیں تاک میں شکاری نشانہ ہیں بستیاں

100

میں نے ایک موقع پر کچھ یوں کہا تھا کہ
کبھی منزل تو کبھی نقل مکانی مانگے
زندگی روز نئی ایک کہانی مانگے
پاکستان ایک ملک سے زیادہ تماشا و تجربہ گاہ ہے جہاں ہر چند سال کے بعد کوئی نہ کوئی تجربہ و تماشا برپا کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے بنتے ہی تماشوں پر تماشے اور تجربوں پر تجربے شروع ہو گئے۔ جن مقاصد کے لیے قربانیاں دی گئی تھیں، 14 اگست کا سورج طلوع ہوتے ہی اس مقصدِ عظیم کو تماشے میں تبدیل کر دیا گیا۔ جس سر زمین پر وعدوں اور دعوں کے مطابق خلافت کا اعلان ہونا چاہیے تھا، گورنر جنرل بننے کے اعلان کے ساتھ ہی اسی طوقِ غلامی کو گلے میں دوبارہ پہن لیا گیا جس سے نجات کے لیے 1857 سے جدو جہد کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے تا حال یہ حال ہے کہ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم اسلام چاہتے ہیں، جمہوریت کو پسند کرتے ہیں یا بوٹوں کی دھمک ہمیں اچھی لگتی ہے۔ پاکستان میں حکومتیں مارشل لائی رہی ہوں یا انہیں عوام نے اپنی رائے استعمال کر کے قائم کیا ہو، ان سب کے خلاف تحریکیں چلائی گئیں اور اس حد تک ان کو سرگرم رکھا گیا کہ فوجی آمریت ہو یا نام نہاد جمہوری حکومت، جب تک ان کے تخت کا تختہ نہیں کر دیا گیا اس وقت تک تحریکیں خاموش ہو کر نہیں بیٹھیں۔ نکتے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اب تک جتنی بھی تحریکیں چلیں ان سب میں مشترک بات مذہب اسلام کے مقدس نام کا سہارا کی دکھائی دیا لیکن پاکستان بن جانے اور حکومتوں کو گرادینے کے بعد وہ ساری قربانیاں جو تحریک چلانے کے مقاصد کے نام پر ملک کے عوام نے پیش کیں، ان کو فراموش کرکے تحریک کے سارے نوسرباز اپنے اپنے مذموم مفادات کے حصول میں مصروف عمل ہو گئے اور قوم سے کیے گئے سارے وعدوں سے منہ موڑ گئے۔
آمریتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا، ویسے بھی جوئے شیر لانے سے کم تو نہیں ہوا کرتا لیکن اللہ کے سادہ دل بندوں کے دلوں میں اس کے دین کی محبت اتنے زبردست طریقے سے بھری ہوئی ہے کہ اگر کوئی جھوٹ موٹ بھی صرف ’’مدینہ‘‘ ہی کہہ دے تو اللہ کے یہ سادہ دل بندے جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اسلام سے محبت کا عالم یہ ہے کہ وہ دساتیر اور فلسفہ ہائے سیاست جس کا اسلام سے کسی بھی قسم کا کوئی واسطہ و تعلق بھی نہیں ہو، اگر اس کے ساتھ ’’اسلامی‘‘ لگا دیا جائے تو یہ اس پر بھی مرمٹنے میں دیر نہیں لگاتے۔ پاکستان میں بسنے والے ان ہی سادہ دل بندوں کی اسلام سے محبت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جتنے بھی منافقانِ قوم و ملت ہیں وہ بھر پور فائدہ اٹھاتے رہے اور آج بھی وہی سب مفاد پرست جمع ہو کر قوم کو ایک مرتبہ پھر بیوقوف بنانے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں اس سے قبل بھی حکومتوں کو ہٹانے کے لیے بڑی بڑی تحاریک چلائی جاتی رہی ہیں اور اس میں بھی کوئی شک شبہ نہیں کہ ان تحریکوں کے نتیجے میں مضبوط سے مضبوط حکومتوں کا دھڑن تختہ ہوتا رہا ہے لیکن کیا کسی نے اس بات پر بھی غور کیا ہے کہ تحریکیں ہر مرتبہ کے دھڑن تختے کے بعد خود تسبیح کے دانوں کی مانند کیوں بکھرتی رہی ہیں۔
ماضی کے متعدد حکومت مخالف اتحادوں کی طرح ایک مرتبہ پھر پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے نام سے تحریک چلائی جا رہی ہے جس کا اگر اب تک کوئی واضح مقصد سامنے آیا ہے تو وہ صرف اور صرف موجودہ حکومت کو گھر بھیجنا ہے۔ یہ تحریک حکومت گرانے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے، یہ بات قبل از وقت سہی لیکن یہ بات بہت واضح ہوکر سامنے آتی جارہی ہے کہ اس کی کامیابی (خدا نخواستہ) ملک کی سالمیت کو ٹھیس پہنچانے کے خدشات سے لبالب بھری ہوئی ہے۔ جس طرح گوجرانوالہ والا کا جلسہ مسلم لیگ ن کا نمائندہ بنا دیا گیا اسی طرح کراچی کا جلسہ پی پی کا نمائندہ بن گیا۔ ان دو جلسوں کی اٹھانیں بتا رہی ہیں کہ جہاں جہاں بھی جلسوں کا انعقاد کیا گیا ہے وہ پی ڈی ایم کے نہیں وہاں کے مقامی نمائندہ جلسے ہوںگے۔ بلوچستان میں اس کا رنگ کچھ اور ہوگا اور کے پی کے میں کچھ اور۔ ہر پارٹی اپنے اپنے علاقوں میں اپنے اپنے مقاصد کو زیادہ سے زیادہ مضبوط و مستحکم کرے گی جس پر بظاہر پی ڈی ایم کے سر براہ، مولانا فضل الرحمن کو کوئی اعتراض بھی نہیں۔ حکومت گر جانے کے بعد پی ڈی ایم کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا البتہ علاقائیت اور لسانیت کے نام پر ہر پارٹی اپنے آپ کو مضبوط سے مضبوط تر ضرور کرتی چلے جائے گی۔ یہ بات کافی حد تک حقیقت ہے کہ پاکستان میں اب تک کوئی ایک تحریک بھی ’’ادارے‘‘ کی آشیرواد کے بغیر چلی ہے اور نہ کسی کامیابی تک پہنچی ہے۔ اگر اس مفروضے کو سامنے رکھا جائے تو گویا وہاں بھی (اللہ نہ کرے) ایک کشاکش والی کیفیت ضرور دکھائی دیتی ہے۔ ایک جانب اپنے اپنے صوبوں، علاقوں اور زبانوں میں سیاست کا تقسیم ہونا اور دوسری جانب مستحکم ادارے کی ساکھ کو کمزور سے کمزور بنانے کی کوشش، مستقبل میں ملک کی سالمیت کے لیے خطرے کی شور مچاتی گھنٹیاں نہیں تو پھر کیا ہے۔ ان سارے نکات کی روشنی میں پی ڈی ایم کی اس چلنے والی تحریک کے متعلق ندا فاضلی کا یہ شعر بہت پْر مغز اور حسبِ حال سا لگتا ہے کہ
ہیں تاک میں شکاری نشانہ ہیں بستیاں
عالم تمام چند مچانوں میں بٹ گیا