سوشل میڈیا اور اسلامی سزائوں پر عملدرآمد سے گریز جنسی جرائم میں اضافے کا سبب ہے

79

 

کراچی (رپورٹ: خالدمخدومی) علماء، نفسیاتی ماہرین ،وکلا اور سماجی رہنمائوں نے خواتین اور بچوںسے بڑھتے ہوئے زیادتی کے واقعات کو قرآن سے دوری، ناقص عدالتی نظام اور ملزمان کو سخت سزائیں نہ دینے کو قرار دے دیا،قرآن قصاص کو فرض اور حیات جاودانی قرار دیتا ہے ، سوشل میڈیا کا غلط استعمال معاشرے میں جنسی ہیجان میں اضافے کاباعث ہے ،بچوں اور خواتین سے زیادتی میں ملوث افراد میں سے 4 فیصد لوگ دماغی امراض کا شکار ہوتے ہیں، پولیس کی نااہلی، انداز تفتیش اور رشوت خوری کی بناء پرملزمان کا رہا ہونا بھی جنسی جرائم میں اضافے کا سبب ہے‘ تعلیمی ادراوں میں اسلامی اخلاقیات کو نصاب کا حصہ بنایا جائے، نکاح کو سستا اور آسان کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز عالم دین مفتی زبیر، معروف نفسیاتی ماہر ڈاکٹرفیصل ممسا اور ماہر قانون لیاقت علی گبول نے جسارت سے خصوصی گفتگو میں کیا۔ ممتاز عالم دین اورجامعہ صفہ کے مہتمم مفتی زبیر نے کہا کہ بچوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا سبب ان جرائم میں
ملوث ملزمان کو فوری سزائیں نہ دیا جانا ہے، زرداری دور حکومت میں پھانسی کی سزا پر مغرب کے دباؤ پر ساڑھے تین سال تک پابندی رہی، جبکہ اللہ تعالیٰ جو بندوں کو بندوں سے زیادہ جانتا ہے، سورۃ البقرۃ میں قصاص کو فرض قرار دیا اور مسلمانوں کے لیے اسے حیات جاودانی کا سبب بھی بتایا، ان کا کہنا تھا کہ ایک ٹی وی شو میں خواتین اوربچوں کے ساتھ زیادتی کے مجرموں کو اذیت موت دینے، تڑپا تڑپا کر مارنے اور بوٹی بوٹی کرنے کی تجویز دی جا رہی تھی جبکہ اسلام میں اس طرح کے جرائم میں ملوث ملزمان کے سنگسار کرنے اور کوڑے مارنے کی سزا رکھی گئی ہے، بعض دوسرے جرائم میں توکوڑوں کی سزا دی گئی ہوگی لیکن آج تک اس نوعیت کے جرائم میں ملوث کسی ملزم کو نیشنل یا قذافی اسٹیڈیم میںکوڑے نہیں مارے گئے اس موقع پر انہوں نے سعودی عرب کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سعودی حکومت سے اختلاف کیا جاسکتا ہے تاہم اسلامی تعزیری نظام کی وجہ سے وہاں جرائم کی شرح دنیا بھر میں سب سے کم ہے۔ مفتی زبیر کا مزید کہنا تھاکہ سوشل میڈیا بھی معاشرے میں جنسی ہیجان کا سبب بن رہا ہے، خود وزیراعظم پاکستان نے ندیم ملک کو ایک ٹی انٹرویو بتایا کہ ان کو یہ بات جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ پاکستان کا پورن گرافری میں پہلا نمبر ہے، یہ انکشاف وزیراعظم کی جانب سے کیا گیا جو غلط نہیں ہو سکتا، اس کا مطلب یہ ہے کہ ا س سے منسلک جرائم بھی یقینی زیادہ ہوں گے، لہٰذا اس بات کی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا کو حدود میں رکھا جائے، سوشل میڈیا پرپپب جی اور بلیو وہیل جیسے گیم ہوتے جس میں کھیلنے والوں کو مختلف ٹارگٹ دیے جاتے ان گیمز کے اثر میں آکر ان کے کھیلنے والے بعض افراد نے خودکشی تک کر لی۔ مفتی زبیر کا کہنا تھا کہ نام نہاد لبرلز بھی معاشرے میں بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کا سبب ہیں جو زنا بالجبر کو تو جرم مانتے ہیں لیکن زناباالرضا کی بات آئے تو میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں انصاف کی عدم فراہمی بڑھتے ہوئے جرائم کا بڑ اسبب ہے، ملک کے ممتاز علما کی جانب سے زور دیے جانے کے باوجود ڈاکٹر عادل خان کے ورثا کی جانب سے ان کی شہادت کا مقدمہ نہ درج کرایا جانا اس کی بڑی مثال ہے، ان کا کہنا تھاکہ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ایک شخص کے اہل خانہ اس کے قتل کا مقدمہ درج کرانے ہی سے انکار کردیں، مفتی زبیر کا کہنا تھا کہ بچوںاور خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ نکاح کو آسان، سستا اور عام کیا جائے، آج کے معاشرے میں نکاح مشکل اور بے راہ روی آسان ہے ، ان کا مزید کہنا تھا کہ جہیز معاشرے کے لیے لعنت بن چکا ہے اس پر پابندی لگنی چاہیے، ممتازماہر نفسیات ڈاکٹر فیصل ممسا نے جسارت سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا کہ بچوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے ہوئے رحجان کا سبب قرآن سے دوری ہے، اگر والدین اپنے بچوں کیلیے شروع ہی سے دینی اور اخلاقی تربیت کا اہتمام کریں تو اس طرح کے واقعات میں کمی آسکتی ہے۔ ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ بچوںاور خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں ملوث3.9 فیصد دماغی چوٹ کی وجہ سے ایک مخصوص مرض کا شکار ہونے والے افراد ہوتے ہیں جبکہ کچھ افراد ایک پاورجن نامی رویہ رکھتے ہیں، اس میں مبتلا افراد اپنی قوتوں کا استعمال بچوں پر کرتے ہیں، ان جرائم میں مبتلا کچھ افراد سیڈازم کا شکار ہوتے ہیں، ان میں تشدد پسندی ہوتی ہے اور زخم چوٹ وغیرہ دے کر اس کا لطف لیتے ہیں اسی طرح کچھ لوگ اینٹی سوشل پرسنلٹی ڈس آرڈر میں مبتلا ہوتے ہیں یہ بھی خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں ملوث ہوتے ہیں اسی طرح بچپن میں جنسی تشدد کا نشانہ بننے والے بھی اس نوعیت کے جرائم میںملوث ہو سکتے ہیں، یہ عام طور گھر کے نوکروں، چوکیداروں یا اپنے رشتہ داروں کے غلط رویے کا شکار ہوتے ہیں، ڈاکٹر فیصل ممسا نے بچوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات کے انسداد کے لیے اسکولوں میں اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کے اسباق میں اضافے کو ضروری قرار دیا‘ خصوصاً اسلامی اخلاقیات اور طرز زندگی کے بارے میں بچوں کوآگاہ کیا جائے، سوشل میڈیا بھی اس طرح کے جرائم پنپنے کا سبب ہے اب ہر بچہ بڑ اکچھ بھی دیکھ سکتا ہے لہٰذا اس سلسلے میں ضروری اقدامات کیے جانے چاہییں۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی میں ملوث افراد کو فوری طور پر اسلامی یا سخت سزائیںدینے سے ان جرائم کی شرح میں کمی آسکتی ہے، ممتا ز ماہر قانون لیاقت علی خان گبول ایڈووکیٹ نے کہا کہ بچوں اور خواتین کے ساتھ بڑھتے ہوئے جرائم کا سب سے بڑا سبب ان جرائم میں ملوث افراد کی عدم گرفتاری، سزاؤں کا نہ ہونا اور پولیس کی ناقص تفتیش ہے، لیاقت علی گبول کا کہنا تھاکہ اس طرح کے واقعات بڑھنے کاسبب سزا کا خوف ختم ہو جانا ہے، اگر فوری طور پر ملزمان کو سزائیں دی جائیں تو ان جرائم پر قابوپایا جاسکتاہے۔