پاکستان کی حکومت تاریخی اعتبار سے تمام رنگیلے حکمرانوں کو پیچھے چھوڑ چکی ہے اگر کہا جائے کہ پاکستان کی ناکام ترین حکومت ہے تو یہ الفاظ بھی اس کے لیے کم ہوں گے۔ ایک زرعی ملک جہاں ہر سال فاضل گندم پیدا ہوتی ہے وہاں لاکھوں ٹن گندم درآمد کرنی پڑ رہی ہے۔ کہا گیا تھا کہ گندم درآمد کرنے سے ذخیرہ اندوزوں کی چیخیں نکل جائیں گی، قیمت کم ہو جائے گی اور درآمد گندم کے آنے سے صورتحال بہتر ہوگی لیکن بیرون ملک سے گندم آگئی، مزید درآمد کے آرڈر دے دیے گئے لیکن سارے اقدامات رائیگاں گئے اور 20 کلو آٹے کا تھیلا 1500 روپے اور ایک کلو چینی کی قیمت 110 روپے تک پہنچ گئی اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے اس پر حکومت نے مزید بڑا کام کیا ہے اسٹیٹ بینک کی رپورٹ ہے کہ حکومت نے 17 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرض لیا ہے۔ ستمبر 2018ء تک یہ قرض 96 ارب ڈالر تھا جبکہ 30 جون 2020ء تک یہ 113 ارب ڈالر ہو چکا تھا۔ یہ غیر ملکی قرضے ادا کرنے کا وقت بھی قریب آرہا ہے، حکومت ٹیکس ہدف تک پہنچ نہیں پا رہی جو آمدنی ہے اس سے گندم اور چینی درآمد کی جا رہی ہے اور سارا زور اپوزیشن کے خلاف لگا رکھا ہے۔ اب حکومت نے آٹے کی قیمت کو نیچے لانے کے لیے ایک اور حکمت عملی اختیار کی ہے اور وہ یہ ہے کہ صوبوں سے گندم جاری کروائی جائے گی۔ گندم کی امدادی قیمتوں پر نظر ثانی کی جائے گی۔ کاشتکاروں کی لاگت میں کمی اور کھادوں پر سبسڈی کی تجاویز بھی دی جائیں گی۔ حکومت جو کام اب کرنے کا ارادہ کر رہی ہے اسے یہ کام پہلے کر لینے چاہیے تھے۔ کاشتکاوں کی لاگت کم ہو گئی تو گندم کی امدادی قیمت کاشتکاروں کے لیے مناسب رکھی جا سکے گی اور پھر وہاں سے فلور ملز تک سپلائی اور ان کی خریداری پر کنٹرول بھی حکومت ہی کو رکھنا چاہیے۔ کھادوں پر سبسڈی کے بجائے حکومت کو خود اچھی کھاد ارزاں نرخوں پر کاشتکاروں کو فراہم کرنی چاہیے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سرکار کے گوداموں میں لاکھوں ٹن گندم اور چینی موجود ہے لیکن آٹا اور چینی ڈالر کی طرح پر لگا کر اڑے چلے جا رہے ہیں۔ سبزی، پھل، دال، چاول، تیل کسی چیز کی قیمت پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اب شبلی فراز کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی پر اگلے چار ماہ میں کنٹرول کرلیں گے۔ لیکن کیا ایسا ہو سکتا ہے۔ یہ وہی لوگ تو ہیں جنہوں نے دعوے کیے تھے کہ اقتدار ملنے کے اگلے دن بیرون ملک سے لوٹی ہوئی دولت پاکستان آجائے گی۔ اس رقم سے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے قرضے ان کے منہ پر دے ماریں گے۔ باقی رقم سے پاکستان کو جاپان سے آگے لے جائیں گے اور نوکریاں، مکانات، بسیں، درخت وغیرہ تو ہوا ہو گئے۔ یہ چینی کی قیمت کو کنٹرول نہیں کر پا رہے۔ چلے ہیں نواز شریف کو ملک واپس لانے۔ ضرور لائیں نواز شریف کو لیکن پہلے اپنے ملک پر توجہ دیں، الٹے سیدھے اقدامات نہ کریں۔ عوام کو بنیادی ضرورتیں نہیں مل رہی ہیں سڑکوں کا حال برا ہے۔ ٹرانسپورٹ ہے ہی نہیں اور ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر جو بسیں اور ویگنیں چل رہی ہیں ان کا حال یہ ہے کہ چھتوں پر بھی لوگ سوار ہیں۔ ایسے گروہ کو حکومت کہنا بھی غلط ہے۔