لکیر پیٹنے کے بجائے اصلاح کریں

59

آئی جی سندھ مشتاق مہر کے اغوا ان پر دبائو اور اس واقعے پر احتجاج کے بعد آرمی چیف سے بلاول زرداری کا رابطہ اور آرمی چیف کا کور کمانڈر کو تحقیقات کا حکم بلاول کا آرمی چیف سے اظہار تشکر، پولیس کا احتجاج دس روز کے لیے موخر۔ اور سب معاملہ ٹھیک ہو گیا۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا ہے بلکہ طاقت کے علمبردار اداروں نے آئین کی سرخ لکیر عبور کر ڈالی یہ جو کہا گیا ہے کہ نا معلوم افراد تھے تو اس بارے میں تبصرے بھی سامنے آگئے ہیں کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ نامعلوم افراد کون تھے۔ لیکن ریاست کے اوپر ریاست کا تاثر تو پیدا ہو گیا ہے بلاول زرداری نے اچھا کیا کہ آرمی چیف سے فوری رابطہ کیا اور آرمی چیف نے بھی فوری طور پر کورکمانڈر کو تحقیقات کا حکم دے دیا۔ اب تحقیقات کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں وہ نامعلوم لوگ سامنے لائے جائیں گے یا پچھلے واقعات کی طرح یہ معاملہ بھی گول مول ہو جائے گا۔ کسی ایک افسر کی ذاتی غلطی قرار دے دی جائے گی۔ لیکن آئی جی سندھ اور ایڈیشنل آئی جی سندھ کو کم ازکم اتنا تو پتا چل گیا ہوگا کہ لیاری، لائنز ایریا، لیاقت آباد، پی ای سی ایچ ایس یا گلشن اقبال وغیرہ میں یا کسی کچی بستی میں رات کے تین چار بجے کچھ نامعلوم لوگ کسی غریب کو کس طرح اٹھا کر لے جاتے ہوں گے۔ ان لوگوں کے پاس گارڈ بھی نہیں ہوتے اور وہ آئی جی اور ڈی آئی جی کی طرح بارسوخ لوگ بھی نہیں ہوتے، وہ غریب چھٹی کی درخواست دے دیں تو بھی ہلچل نہیں مچتی بلکہ کسی کا بیٹا رات کو اٹھا لیا جائے تو صبح دیر سے دفتر پہنچنے پر اس کی تنخواہ ضرور کٹ سکتی ہے۔ سندھ پولیس کے افسران اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ ان کی پولیس کس طرح کام کرتی ہے اور کس طرح لوگوں کو اٹھا کر لاتی ہے۔ یہ کام رینجرز کی گاڑیوں اور پولیس کی گاڑیوں میں تو روز ہی ہوتا ہے۔ بس فرق یہ ہوتا ہے کہ یہ غریب لوگ ہوتے ہیں یا سیاسی مخالف ہوتے ہیں یا ان کا بیانیہ اس بیانیے سے مختلف ہوتا ہے جو رائج کیا جا رہا ہوتا ہے۔ ایسا بھی شاید تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ امیر و غریب، بڑے اور چھوٹے کے لیے قانون یا رواج یکساں ہو گیا۔ شاید سماجی ذرائع ابلاغ اس حوالے سے زیادہ کھل کر اظہار کر سکیں لیکن ہوا ایسا ہی ہے۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ لکیر پیٹنے کا عمل ہے اور لکیر پیٹنے سے کبھی سانپ نہیں مرتا۔ کیپٹن صفدر کی گرفتاری اور آئی جی سندھ کے معاملے نے لاپتا افراد کمیشن اور عدلیہ کو بھی حقائق سے اچھی طرح واقف کرا دیا ہوگا جو اکثر سماعتوں کے موقع پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھتے تھے کہ لاپتا افراد کہاں گئے انہیں زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ اب انہیں بھی پتا چل گیا ہوگا کہ لوگوں کو لاپتا کرنے والے کون ہیں اور کہاں سے آتے ہیں۔ ان کے لیے فیصلہ کرنا آسان ہو گیا ہوگا۔ لیکن ایک سوال امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے بھی پوچھا ہے انہوں نے سیاسی معاملات میں فوج کو گھسیٹنے کے بارے میں کہا ہے کہ سابق اور موجودہ وزیراعظم کے بیانیوں میں فرق نہیں ہے۔ اس راز سے پردہ اٹھانے کے لیے ٹروتھ کمیشن بنایا جائے۔ ان کا سوال ہے کہ سابق وزیراعظم نے کچھ حقائق سے پردہ اٹھایا اور موجودہ وزیراعظم نے ان کا اقرار کیا۔ ان کی مراد وزیراعظم عمران خان کی جانب سے خواجہ آصف کا جنرل باجوہ کو فون کرنے کا انکشاف تھا۔ سراج الحق نے آرمی چیف سے کہا ہے کہ خواجہ آصف سے متعلق وضاحت کریں۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف سے متعلق وزیراعظم نے جو بات کہی ہے اس کی وضاحت حکومت خواجہ آصف یا آرمی چیف کی طرف سے آنی چاہیے۔ وزیراعظم کے بیان کا مطلب تو یہی ہے کہ فوج ہراتی ہے اور فوج جتواتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ٹروتھ کمیشن کن لوگوں پر مشتمل ہو گا اور کون بنائے گا۔ موجودہ پارلیمنٹ میں تو دو چار ہی سر پھرے ملیں گے جو اس بات کی تائید کریں ورنہ اکثریت انگوٹھا لگائے گی اور گھر جائے گی اور نہ لگایا تو بھی گھر جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ یہ کام حکومت کے خلاف تحریک چلانے والی پارلیمانی پارٹیوں کا ہے۔ انہیں پارلیمنٹ کا ٹروتھ کمیشن بنانا چاہیے تاکہ یہ معاملہ بھی ایک مرتبہ طے ہو جائے کہ کون کس دائرے میں کام کرے گا۔ کس کا اختیار کتنا ہوگا۔ یہ کام پارلیمنٹ کے مفاد میں بھی ہے جمہوریت اور فوج کے مفاد میں بھی۔ اگر دیکھا جائے تو جس ہائبرڈ وار کا ذکر فوجی ترجمان بار بار کرتے رہتے ہیں اس قسم کے بیانات اور خبریں اس کا حصہ ہیں اور سارا ملبہ فوج پر گرایا جا رہا ہے۔ فوج کو نہ صرف یہ ملبہ صاف کرنا ہے بلکہ اس سے خود کو بچانا بھی ہے۔ اس کا واحد طریقہ یہی ہے کہ تمام ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کریں اور اپنی حدود میں رہ کر اپنی حدود بھی پہچانیں۔ کسی کو بتانے کی ضرورت نہ پڑے کہ رکن اسمبلی کس مقصد کے لیے رکن اسمبلی بنتا ہے۔ اور عدلیہ کے ججوں کو کیا کرنا چاہیے اور فوج یا دیگر عسکری اداروں کو کیا نہیں کرنا چاہیے۔ جو مطالبہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کیا ہے وہ بات سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی امیر العظیم نے مزید وضاحت کے ساتھ دہرائی ہے کہ عمران نواز بیانیے پر چیف جسٹس جے آئی ٹی بنائیں حقائق سامنے لائے جائیں۔ ان کا یہ مشورہ بھی درست ہے کہ اسٹیبشلمنٹ ریفری بن کر کام کرے کھلاڑی نہ بنے تو ملک ترقی کر سکتا ہے۔ ان کا یہ سوال بھی بجا ہے کہ پرائیویٹ لمیٹڈ پارٹیاں کس منہ سے جمہوریت کی بات کرتی ہیں۔ لندن میں بیٹھ کر جمہوریت ٹھیک نہیں ہوگی۔ دراصل جمہوریت اسی وقت ٹھیک ہوگی جب لوگ، پارٹیاں اور ادارے اپنے اوپر جمہوریت نافذ کریں گے۔