اجمل وحید کی والدہ تنظیم اساتذہ پاکستان کے سابق سربراہ حافظ وحید اللہ خان مرحوم کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ملنے والی خبر نے حادثے کی اطلاع دی اور میں حیران تھی کہ آج بدھ ہے اور کل (یعنی منگل) کو تو ہم ان سے ملاقات کے لیے نکلے تھے مگر راستے میں معلوم ہوا کہ ان کا ایم آر آئی ہو رہا ہے۔ اس لیے ملاقات دو تین دن بعد رکھی۔ مگر ملاقات نصیب میں نہ تھی۔ اور اب میں ان کو آخری سلام کرنے کے لیے جارہی ہوں۔ میری ہمت نہیں پڑ رہی کہ آن بان والی آپا کو کبھی میں اس طرح لیٹا ہوا دیکھ پائوں گی۔ تصور میں ان کا پرنور چہرہ آرہا ہے جو روشنی سے جگما رہا ہوگا۔ آپا جی سے میری پہلی ملاقات (غالباً) 1985ء میں حیدرآباد میں ارکان کی تربیت گاہ میں ہوئی۔ میں بہت متاثر ہوئی بلکہ مرعوب ہوئی کیونکہ وہ بڑے وقار کے ساتھ ہاتھ میں پرس لیے کسی بیگم صاحبہ کی یاد دلارہی تھیں۔ اور اب تک جن ذمے داران سے واسطہ پڑا تھا وہ ان سے مختلف لگ رہی تھیں۔ مگر جب وہ مائک پر گفتگو کرنے گئیں تو وہاں پر ایک پیاری سی شفیق سی خالہ جان ہی محسوس ہوئیں اور نہ صرف خود ساختہ خول ٹوٹا بلکہ میں اس شفیق ہستی کی گرویدہ ہوگئی کیونکہ ہم چھوٹے بچوں والیوں کے مسائل ہر تھوڑی دیر بعد بدل جاتے۔ ہم چھوٹے بچوں والیوں کو ایک الگ کمرہ رہائش کے لیے دیا گیا تھا۔ اب اگر ایک ماں اپنے بچے کے لیے کوئی چیز نکالتی تو باقی بچے اپنی تھیلے میں بھرے ہوئے دنیا جہاں کی نعمتوں کو چھوڑ کر اس چیز کا مطالبہ کرتے جب ہم بچے چپ کرا کرا کر تھک جاتے تو ناظمہ صوبہ جہاں آرا آپا کے پاس مسئلہ لے کر پہنچ جاتے وہ مسئلہ حل کرتیں۔ یاد رہے کہ گاڑیوں، پیڈسٹل فین اور ڈرائیوروں کی اس درجہ سہولت نہ تھی جو آج ہے۔
جب پنکھا ایک بچے کی طرف ہوتا تھا دوسرے رونے لگتے پہلے ہم خود حل کرنے کی کوشش کرتے پھر بھاگے بھاگے ناظمہ صوبہ کے پاس پہنچ جاتے۔ اور ایک کا بچہ روتا تو باقی بھی سوتے سے اٹھ کر بیٹھ جاتے اور کچھ تو اپنے روتے ہوئے دوست کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کرنے لگتے۔ اور ہمارے تو ہر درد کی دوا ناظمہ صوبہ ہی تھیں۔ اور میں حیران ہوتی کہ شخصیت کا جاہ و جلال ان کی نرمی اور سمجھ داری میں کوئی خلل ڈالنے کی ہمت نہیںکرتا۔ جب بھی مختلف ذمے داریوں کے حوالے سے سکھر جانا ہوا۔ ان سے ملاقات رہی اور ان کی شفقت اور محبت کا لطف اٹھایا۔ ان کی زندگی حوادث سے آراستہ رہی مگر ان کی استقامت چٹانوں کو مات دینے والی تھی۔ ایسے ہی ایک حادثہ کی خبر جب ہمیں ملی اور طلعت باجی (طلعت ظہیر) حامدہ آپا ان کی دل گیری کے لیے جانے لگیں تو میں بھی ساتھ گئی۔ ان کو ہمارے آنے کی اطلاع تھی جب ہم پہنچے تو ہمارے لیے ناشتہ رکھا گیا۔ آپا جی کا یہ کہنا عطیہ میں نے آج خود تمہارے لیے پراٹھے بنائے ہیں (تہ دار پراٹھے) اور بچے مذاق اڑارہے تھے کہ خیر ہے آج… مگر میں نے کہا میری عطیہ خوش ہوگی۔ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں ان کی دلدہی کے لیے آئی ہوں یا وہ میری دلداری کر رہی ہیں۔ میری ناظمہ صوبہ کی ذمے داری کے بعد جب وہ سکھر میں ہوتیں تو ملاقات رہتی۔ میں کوشش کرتی کہ میں ان سے ملاقات کروں مگر ہر دور ے پر ممکن نہ ہوتا۔ ایک بار کچھ عرصہ وقفہ آگیا۔ اور جب ہم ان کے پاس پہنچے اور میں ان کے گلے لگ گئی تو وہ رونے لگیں۔ معلوم ہوا کہ اس سے پہلے جب ہم گھر گئے تھے تو انہوں نے کسی لڑکے سے خط بھجوایا کہ مجھ سے آکر فوراً ملو وہ پرچہ مجھ تک نہیں پہنچا۔ مجھے خبر بھی نہیں ہوئی اور جب میں نہیں گئی تو انہوں نے طے کر لیا کہ آئندہ وہ میری شکل نہیں دیکھیں گی۔ کہنے لگیں لو اب تم آکر لپٹ گئی ہو تو سارا غصہ بھی اتر گیا ورنہ میں بہت روئی تھی کہ میری بات کی لاج بھی نہ رکھی۔ اور میں اللہ کا شکر ادا کرنے لگی کہ ہم پہنچ گئے۔ ورنہ نجانے کتنا نقصا ن ہوتا۔ (میرا)
وہ جماعت اسلامی سندھ کی پہلی ناظمہ صوبہ تھیں ان کے زمانے ہی میں خواتین نظم (سندھ) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ بحیثیت تنظیم ان کے اولین ساتھیوں میں آ پا کلثوم عبیدی عفیرہ ناظمہ ضلع سکھر، ماروی ناظمہ ضلع سکھر کی نانی، آپا زیب النساء، (ڈاکٹر نور النساء نوری سعیدہ، افضل اور فخر کی والدہ) اور ادی حاکم (عائشہ ظہیر کی والدہ) منفرح بہن اور معراج فاطمہ بہن شامل ہیں۔ اس زمانے میں اندرون سندھ میں ڈویژن کی سطح پر نظم قائم کیا گیا تھا ۔لاڑکانہ ڈویژن، شکار پور ڈویژن، سکھر ڈویژن، حیدر آباد ڈویژن اور میر پور ڈویژن تھے (میں اپنی یاد داشت کی بنا پر کہہ رہی ہوں کمی بیشی کی معذرت) حیدرآباد میں شمشاد آپا جو اب اسلام آباد میں ہیں، میرپور میں نعیمہ خاتون اور فوزیہ خالد تھیں۔ فوزیہ خالد مدرسہ چلا رہی ہیں اور موجودہ صوبائی نظم کا حصہ ہیں نیز ضلع عمر کوٹ اور تھر پارکر کی نگران ہیں آپا جی زیب النساء اور آپا کلثوم عبیدی اب اس دنیا میں نہیں اللہ ان کی قبروں کو نور سے بھر دے اور ان کے درجات بلند کر دے۔ آپاجی ادی حاکم اس وقت بستر پر ہوش و ہواس سے بیگانہ ہیں جبکہ منفرح بہن اور معراج بہن بھی بہت بیمار ہیں، اور عملی طور پر کچھ کام نہیں کر پا رہی ہیں مگر اس گلشن کی آبیاری میں ان کا بڑا کردار ہے۔ اللہ تعالی جہاں آرا آپا کی قبر کو نور سے بھر دے اور جو وہ چراغ جلا گئیں ہیں اس میں ہمارا حصہ ڈالدے ہم کو ان کا بہترین صدقہ جاریہ بنا دیے۔