سندھ پولیس لازمی سروسز کا حصہ ، اسے احتجاج کا حق نہیں

82

کراچی ( تجزیہ : محمدانور ) پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) کے اتوار کو ہونے والے جلسے کے موقع پر مزار قائد پر کی جانے والی مسلم لیگ ن کے رہنما کیپٹن ( ریٹائرڈ ) صفدر اور ان کی اہلیہ مریم نواز کی نعرے بازی سے شروع ہونے والے واقعات کے بارے میں بدھ کو بھی بازگشت رہی۔ جبکہ عام لوگوں نے مذکورہ پورے قصے کو بڑھنے سے روکنے
کے لیے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے بروقت کردار کی تعریف کی۔ کراچی کے شہریوں کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ نے اس معاملے کو بڑھنے سے روکنے کے لیے بیک وقت سیاسی اور آئینی و قانونی حکمت سے کام لیا ایک طرف تو پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری سے رابطہ کیا تو دوسری طرف کور کمانڈر کراچی کو اس متنازع واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا۔ آرمی چیف کے فوری ایکشن پر سندھ پولیس کے ترجمان نے بھی اظہارتشکر کیا۔ کراچی کے باشعور شہریوں کا کہنا تھا کہ سندھ پولیس کے سربراہ کے گھر کا دو سرکاری اہلکاروں کا گھیراؤ اور اغوا کرکے لے جانے کا الزام سمجھ سے بالا ہے۔اگر یہ بات درست مان لی جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سندھ پولیس اپنے سربراہ کا تحفظ کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتی ؟ سوال یہ بھی ہے کہ اس پورے واقعے سے صوبائی حکام کو کیوں بے خبر رکھا گیا اور کیا وجہ ہے کہ اس واقعے پر بعد میں بھی کوئی قانونی کارروائی کیوں نہیں کی گئی ؟ عام خیال یہ ہے کہ کسی بھی اطلاع پر فوری کارروائی کے بجائے لیت و لعل سے کام لینے والی پولیس اپنے سربراہ آئی جی کے ساتھ ہونے والے اس واقعے پر قوانین کو نظرانداز کرکے بطور احتجاج چھٹیوں پر جانے کے لیے کیوں تیار ہوگئی تھی۔ یاد رہے کہ پولیس لازمی سروس کا حصہ ہے پولیس رولز کے تحت پولیس کسی ہڑتال اور احتجاج کا اختیار نہیں رکھتی ایسا کرنے پر اس کے خلاف قوانین کے تحت سخت کارروائی کی جاسکتی ہے۔ بہرحال چونکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی یہ الزام لگایا ہے کہ آئی جی پولیس کو اغوا کیا گیا تھا اس لیے اس معاملے کی انکوائری کا حکم دیا جاچکا ہے اب انکوائری کے نتیجے میں ہی واقعہ کے ذمے داروں کا پتا چل جائے گا۔ عام لوگ اتحاد پارٹی کے سربراہ سابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین احمد نے واضح الفاظ میں کہا کہ آئی جی سندھ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ واضح طور پر بیان نہیں کیا جا رہا بلکہ بہت کچھ چھپایا جارہا ہے اگر اس واقعے کو مختلف بیانات کے مطابق مان لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ اگر اس واقعہ میں خلائی مخلوق ملوث ہے تو صاف نام کیوں نہیں لیا جا رہا اور پھر آرمی چیف کے کور کمانڈر کے ذریعے انکوائری کو کیوں قبول کرلیا گیا۔ جسٹس وجیہہ احمد نے کہا کہ صوبائی حکومت اور سندھ پولیس کی جانب سے انکوائری کو تسلیم کرنے کا مقصد یہی نظر آتا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے۔