نہ یہ درست نہ وہ درست (پہلاحصہ)

191

آج کل آہنی اداروں کے ستارے گردش میں ہیں۔ سیاست دان جن کے بارے میں کہا جاتا ہے سب سے پہلے ڈوبتے ہوئے جہاز سے چھلانگیں لگاتے ہیں، کمال حیرت، اس باب میں دلیری کی علامت بن گئے ہیں۔ گوجرانوالہ جلسے میں اگر ایک طرف سابق وزیراعظم نواز شریف نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایف آئی آر کاٹ کر رکھ دی تو اگلے روز ٹائیگر فورس کنونشن میں وزیراعظم عمران خان نے بھی بہ انداز دیگر آرمی چیف کو الیکشن میں دھاندلی کا ملزم قرار دے دیا جب انہوں نے کہا کہ جب خواجہ آصف الیکشن ہار رہے تھے تو انہوں نے آرمی چیف کو فون کیا کہ ’’جنرل صاحب میں الیکشن ہار رہا ہوں‘‘۔ خواجہ آصف کی کامیابی کو اس فون کال کا نتیجہ قراردیا جارہا ہے گویا جنرل باجوہ نے الیکشن میں مداخلت بھی کی اور بددیانتی کا ارتکاب بھی۔ اس سے پہلے عمران خان آئی ایس آئی سربراہ ظہیر الاسلام کے بارے میں کہہ چکے ہیں کہ ان کو پتا تھا کہ نواز شریف نے کتنی کرپشن کی ہے۔ عمران خان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آئی ایس آئی سیاست میں ملوث تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ملک کے سیاست دان ہی کیا کم تھے کہ امریکا سے سابق سیکرٹری آف اسٹیٹ ہیلری کلنٹن بھی ’’بیستی‘‘ کرنے کے لیے آموجود ہوئیں۔ ایک پروگرام میں ان سے سوال پوچھا گیا ’’ڈیپ اسٹیٹ کیا ہوتی ہے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’یہ اصطلاح جو سیاسی ماہرین نے وضع کی ہے چند ممالک کے حوالے سے بیان کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان۔ پورا ملک ایجنسیاں چلاتی ہیں۔ اگر آپ انہیں کراس کریں گے تو ٭آپ کے اوپر کیسز بن جائیں گے٭ نااہل کردیے جائیں گے٭ ملک بدر کردیے جائیں گے٭ قتل کردیے جائیں گے‘‘۔
گرمی تو رخصت ہوچکی لیکن انٹیلی جنشیا کی سطح پر ملک میں گرما گرم بحث شروع ہے۔ اس بحث کا سابق وزیراعظم نواز شریف کی آل پارٹیز کانفرنس میں تقریر کے بعد زیرزمین سے برسر زمین آغاز ہوا جس میں انہوں نے کہا تھا ’’ملک کے لیے بہت ضروری ہے کہ افواج سیاست سے دور رہیں‘‘۔ مریم نواز نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ’’ادارے (یعنی فوج) نظام کا حصہ ہیں لیکن بات چیت کا حصہ نہیں ہیں، اور اگر وہ اس کا حصہ بنتے ہیں تو نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔ سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر پاکستان کے عوام ہیں‘‘۔ گوجرانوالہ جلسے نے اس بیانیے کی حدت میں بے پناہ اضافہ کردیا۔ ان بیانات کے بعد ملک کی کایا پلٹنے کے لیے وہ مباحثہ شروع ہوگیا جس کو سنتے سنتے کان پک گئے ہیں کہ پاکستان کو ایسا ہونا چاہیے، پاکستان کو ویسا ہونا چاہیے۔ سیاسی قیادت کو بالادست ہونا چاہیے یا فوجی قیادت کو یا ان دونوں کو ایک پیج پر ہونا چاہیے جسے ہائبرڈ حکمرانی کہا جاتا ہے۔
جو بیماری ہمیں قیام کے کچھ عرصے بعد ہی سے لاحق ہے اس کا ایک علاج یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ ملک میں سیاسی قیادت کی بالادستی ہونی چاہیے۔ موجودہ دور میں اس کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ جمہوریت میں عوام کی حکمرانی ہوتی ہے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکتے ہیں۔ وہ اپنے نمائندے خود منتخب کرتے ہیں جو ریاست کے تمام اداروں کو عوام کی مرضی کے مطابق چلانے کے عمل کو یقینی بناتے ہیں۔ ریاست میں آخری فیصلہ کن اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے پاس ہونا چاہیے۔ سیاسی قیادت کی بالادستی اس لیے ضروری ہے کہ وہ عوام کے منتخب کردہ ہونے کی وجہ سے وہ عوام کو جوابدہ ہوتی ہے۔ فوجی قیادت عوام کی منتخب نہیں ہوتی اس لیے وہ عوام کو جوابدہ بھی نہیں ہوتی۔ جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں جب کہ فوجی قیادت کی طاقت ان کی عسکری صلاحیت ہے۔ عسکری صلاحیت اور ملکی معاملات چلانے کی صلاحیت دو مختلف چیزیں ہیں جن کا باہم کوئی تعلق نہیں۔
آئین پاکستان قراردیتا ہے کہ ’’ریاست اپنی طاقت اور اختیار کو لوگوں کے منتخب نمائندگان کے ذریعے استعمال کرے گی‘‘۔ قائداعظم محمد علی جناح کے اس قول کو بھی سیاسی بالادستی کی حمایت میں پیش کیا جاتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا ’’یہ بہت ضروری ہے کہ ہماری افواج آئین کے مطابق ہمارے نظام حکمرانی سے دور رہیں‘‘۔ پاکستان کے عوام کی اسلام سے محبت کو دیکھتے ہوئے اسلامی تاریخ سے اس حوالے سے مثالیں تلاش کی جاتی ہیں جیسے عمر فاروقؓ کے حکم پر خالد بن ولیدؓ کی سپہ سالاری کے عہدے سے معزولی۔
فوجی قیادت کی بالادستی کے حامی اپنے موقف کی تائید میں کچھ اس طرح کے دلائل پیش کرتے ہیں:
٭ سیاسی حکومتیں عوام کو یا اپنے منتخب نمائندوں یعنی اراکین اسمبلی کومطمئن کرنے کے لیے درست فیصلے نہیں کرتیں۔ ٭ سیاسی حکومتیں مختلف مافیاز کو نوازنے کے لیے قومی مفاد کے منافی فیصلے کرتی ہیں۔ ٭ سیاسی قیادت قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کردیتی ہے اور قومی مفاد کے خلاف فیصلے کرتی ہے۔ ٭ فوجی قیادت چونکہ عوام کی منتخب کردہ نہیں ہوتی اس لیے اس پر عوام یا اراکین اسمبلی کا دبائو نہیں ہوتا۔ فوجی قیادت کو انہیں خوش کرنے کے لیے کسی دبائو کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ درست فیصلے کرتی ہے۔ ٭ فوجی قیادت بذات خود طاقت ور ہوتی ہے لہٰذا وہ کسی مافیا کے دبائو میں نہیں آتی اور وہی کرتی ہے جو ملکی مفاد میں ہوتا ہے۔ ٭ فوجی قیادت ملکی سیکورٹی کے معاملات سے سب سے زیادہ باخبر اور حساس ہوتی ہے لہٰذا وہ زیادہ بہتر طور پر ملک کا دفاع کرسکتی ہے اور زیادہ بہتر اقدام اٹھاسکتی ہے۔ ٭ فوجی بالادستی کی صورت میں ملک معاشی طور پر زیادہ استحکام حاصل کرتا ہے اور تیزی سے ترقی کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں فیصلہ سازی کا عمل تیزرفتار ہوتا ہے اور فیصلوں میں تاخیر نہیں ہوتی۔
سیاسی اور فوجی قیادت کی خوبیاں اور برائیاں اپنی جگہ لیکن چند ایسے معاملات ہیں جو فوجی اور سیاسی دونوں نظاموں میں مشترک ہیں۔ حکومتیں فوجی ہوں یا سیاسی اسی دائرہ کار میں گردش کرتی ہیں۔ اس حوالے سے ان میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ ٭ سرمایہ دارانہ معاشی نظام تبدیل نہیں ہوتا۔ ٭ امریکی غلامی پر مبنی خارجہ پا لیسی تبدیل نہیں ہوتی۔ ٭ انگریز کا چھوڑا ہوا عدالتی نظام تبدیل نہیں ہوتا۔ ٭ سیکولرازم کی بنیاد پر استوار تعلیمی نظام تبدیل نہیں ہوتا۔ ٭ اسلام کا نفاذ تو درکنار اسلام کسی کی ترجیح ہی نہیں ہوتا۔
معیشت کا حال یہ ہے کہ فوجی قیادت ہو یا سیاسی سب نے آئی ایم ایف سے قرض لے کر اس کا بوجھ عوام پر منتقل کیا ہے اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو نافذ کرکے عوام کا استیصال کیا ہے۔ پاکستان نے اب تک 22مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض لیا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض لینے والوں میں سیاسی اور فوجی دونوں قیادتیں شامل ہیں۔ حکومت سیاست دانوں کے ہاتھ میں ہو یا کسی فوجی ڈکٹیٹر کے سب نے بے محابا ٹیکسوں کی صورت عوام کا خون چوس کر قرضے ادا کیے۔ دونوں جتھوں نے اپنے اللے تللوں اور اسراف میں کمی کرنے کے بجائے آمدن اور اخراجات کے فرق کو کم کرنے کے لیے دھڑادھڑ نوٹ چھاپے، جو عوام کی بچتوں کی قدرکم کرنے اور دن دھاڑے ڈاکے کے مترادف ہے اور جو مہنگائی کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ اسی طرح سیاسی حکومتیں ہوں یا فوجی سب نے پاکستان کی خود مختاری کو امریکا کے قدموں میں ڈال دیا۔ پرویز مشرف نے اگر پورا پاکستان امریکا کی تحویل میں دے دیا، زمینیں، فضائیں، انٹیلی جنس سروسز امریکا کے سپرد کردیں تو بعد کے ادوار میں آنے والی سیاسی حکومتوں نے بھی مشرف کی پالیسیوں کو اسی شدومد سے جاری رکھا۔ پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے امریکی سفیر سے کہا تھا ’’آپ ڈرون حملے کرتے رہیں ہم مذمت کرتے رہیں گے‘‘، لیکن عوامی سطح پر پرویز مشرف کو ہدف تنقید بنایا جاتا رہا کہ پرویز مشرف ہمیں امریکا کی غلامی میں دے گیا۔
(جاری ہے)