کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) جہیز ایک خطرناک ناسور کی طرح بڑی تیزی کے ساتھ ہماری سماجی زندگی کی ہڈیوں کو گھلاتا جا رہا ہے، جس کا ہمیں ذرا بھی احساس نہیں ہے، جہیز نے اپنے ساتھ سماجی تباہ کاری وبربادی کا جو نہ تھمنے والا طوفان برپا کیا ہے اس نے برصغیر ہند وپاک کے معاشرے کا جنازہ نکال دیا ہے۔ ہمارے معاشرے کو جن داخلی برائیوں کا بڑا چیلنج ہے، وہ جہیز کی لعنت ہے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان خواتین ونگ کی خارجہ امور کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، جامعہ کراچی سینٹر آف ایکسیلنس فار ویمن اسٹڈیز کی ڈائر یکٹر پروفیسر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ اور پاکستان میں خواتین کے لیے کام کرنے والے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ویمن پاکستان کے حبیب اصغر نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا ہے۔جماعت اسلامی پاکستان خواتین ونگ کے خارجہ امور کی ڈائریکٹر سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد کی صاحبزادی وسابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں میں جہیز کی رسم ہندوؤانہ اثرات کی وجہ سے داخل ہوئی اور لعنت کی شکل اختیار کرگئی، کتنی ہی لڑکیاں جہیز نہ ہونے کے باعث گھر بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہوجاتی ہیں۔ کم جہیز
کی وجہ سے بہت سی خواتین کی زندگی عذاب ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کا معاشرہ انسانی رشتوں سے زیادہ دولت کو اہمیت دیتا ہے جس کی وجہ سے جہیز کی لعنت مزید بڑھ گئی ہے۔ اسلام میں جہیز کی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام سادگی کا دین ہے اور اسلام کی نظر میں عورت کا جہیز اس کی بہترین تعلیم وتربیت ہے۔ اسلام میں عورت کی عزت اور تکریم کو اولین حیثیت حاصل ہے، بدقسمتی سے مسلمانوں نے بھی بتدریج اس ہندوؤانہ رسم کو اپنا لیا ہے، اب مسلمانوں میں بھی جہیز کے لین دین اور پھر جہیز کا مطالبہ اور اس سے بھی آگے جہیز کے علاوہ تلک سرانی اور جوڑے کے نام سے لڑکوں کی طرف سے رقم کے مزید مطالبات کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ اسلام نے تو اس کے برخلاف مہر اور دعوت ولیمہ کی ذمے داری شوہر پر رکھی ہے اور عورت کو نکاح میں ہر طرح کی مالی ذمے داری سے دور رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں جہیز کا مطالبہ کرنا سخت گناہ ہے، خواہ اس کی مقدار متعین کی گئی ہو یا نہیں، شادی سے پہلے ہو یا شادی کے بعد، اس لیے کہ جہیز لینا رشوت کے مترادف ہے اور رشوت اسلام میں حرام ہے۔ جہیز رشوت ہی کی دوسری شکل ہے۔ اسلام میں نکاح کی حیثیت ایک معاہدے کی ہے جس میں مرد وعورت قریب قریب مساویانہ حیثیت کے مالک ہیں، والدین کے متروکہ میںخواتین کو لازماً اس کا حصہ میراث ملتا ہے جبکہ ہندو مذہب میں نکاح کے بعد عورت کا رابطہ اپنے خاندان سے ختم ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے خاندان سے میراث کی حقدار نہیں رہتی۔ اسی لیے جب لڑکی کو گھر سے رخصت کیا جاتا تھا تو اسے کچھ دے کر رخصت کیا جاتا تھا۔ بد قسمتی سے مسلمانوں میں بھی جہیز کے لین دین کا سلسلہ تیزی سے چل پڑا ہے۔انہوں نے کہا ہمیں جہیز جیسی جاہلانہ اور غیراسلامی رسوم ورواج اور طور طریقوں کو چھوڑنا ہوگا ۔اسلام میں خواتین کی کفالت کی ذمے داری مردوں پر عاید ہے عورت کو گھر کی کفالت کرنا ضروری نہیں ہے،جہیز نمود ونمائش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس ناسور کو جڑ سے ختم کرنا ہے تو ہمیں عملی طور پر اس کا آغاز اپنی ذات اور اپنے گھر سے کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں ہمیں جہیز دینے کا بائیکاٹ کرنے کی ضرورت ہے وہیں ہمیں اپنے بیٹوں اور بھائیوں کے لیے بھی جہیز لینے کا بائیکاٹ کرنا ہوگا۔ جامعہ کراچی سینٹر آف ایکسیلنس فار ویمن اسٹڈیز کی ڈائر یکٹر پروفیسر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں جہیز کی وجہ سے شادی بیاہ ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ اوسط ًآمدنی والا شخض جہیز کیسے پورا کرسکتا ہے ؟ اور والدین بیٹیوں کی خوشیاں پوری کرنے کی تمنا لیے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ اراکین پارلیمنٹ کو چاہیے کہ وہ اس اہم مسئلے پر بھر پور آواز اٹھائیں، قوانین بنائے جائیں تا کہ اس لعنت سے چھٹکارا مل سکے ۔انہوں نے کہا کہ معاشرے میں جہیز کی بڑھتی ہوئی طلب معاشرے میں بگاڑ کا باعث بن رہی ہے اس کی وجہ سے خاندانی نظام متاثر ہو رہا ہے۔ جہیز پر مکمل طور پر پابندی ہونی چاہیے،حکومت کو عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ بھی سچ ہے کہ ہم نے جہیز کو بے حد کمرشل کر دیا ہے۔ اسے میڈیا بھی پروموٹ کرتا ہے۔ دوسرا مسئلہ بننے سنورنے کا ہے، مہنگے پارلر ، فوٹو شوٹ نے بھی جہیز کی نمود ونمائش کو بڑھاوا دیا ہے۔ جہیزکی لعنت کے خلاف صف آرا ہونا پڑے گا اور خصوصاً نوجوانوں کو اس راہ میں قربانی دینا پڑے گی۔ پاکستان میں خواتین کے لیے کام کرنے والے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ویمن پاکستان کے حبیب اصغر نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پاکستان میں جہیز کے خلاف لوگو ں میں شعور اجاگر کرنے لیے گزشتہ سال ’’جہیز خوری بند کرو‘‘ کے نام سے ایک مہم چلائی تھی اس مہم کا مقصد لڑکے والوں کی طرف سے جہیز لینے کی جاہلانہ رسم کے بارے میں معاشرے میں شعور اجاگر کرنا تھا‘ اس مہم کے ذریعے ہم مردوں میں یہ تاثر ختم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ لڑکی کے خاندان سے مالی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے کی ستم ظریفی دیکھیں کہ سسرال سے ایک کپ چائے پینے کو حقیر بات سمجھنے والے مرد جہیز کی صورت میں ’’اسٹارٹ اپ فنڈز‘‘ لینے میں بالکل عار محسوس نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ جب رشوت لینے والے کو رشوت خور کہتے ہیں تو جہیز لینے والے کو جہیز خور کیوں نہیںکہتے؟ جہیز ہمارے معاشرے کے ہر طبقے میں جڑیں پکڑ چکا ہے اور ہمیں اس بے ضابطگی کو روکنا ہوگا۔ اب ہماری کوشش ہے کہ اسے اردو لغت کا باقاعدہ حصہ بنایا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ مہم کا مقصد لوگوں میں جہیز کے اہم مسئلے پر بات چیت کو بڑھانا ہے، امید ہے اس مہم سے بویا جانے والا بیج آگے چل کر جہیز لینے جیسی قابلِ مذمت رسم کے خاتمے کا باعث بنے گا۔ دوسری جانب وفاقی وزارت مذہبی امور نے جہیز کے خاتمے سے متعلق قانون سازی پر کام شروع کر دیا ہے۔ جہیز پر پابندی سے متعلق تجاویز کی تیاریوں کا عمل جاری ہے، مجوزہ قانون کے تحت دلہے کا خاندان مہنگا فرنیچر، گاڑیاں، زمین جائداد یا زیورات کا مطالبہ نہیں کر سکے گا۔ قانونی مسودہ تیار کر لیا گیا ہے جو وزارت قانون وانصاف میں زیر غور ہے۔ جہیز میں اسلامی تعلیمات کے مطابق بنیادی ضروریات کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ بستر اور دلہن کے کچھ کپڑے جہیز میں شامل ہیں۔ بل کے مطابق دلہن کو دیے جانے والے جہیز کی رقم یا سامان کی قیمت4 تولے سونے کی قیمت سے زیادہ نہیں ہونی چا ہیے۔ بل کے مسودے میں تجویز ہے کہ شادی کی تقریب میں شرکت کرنے والے مہمانوں کی طرف سے دیے گئے تحائف کی قیمت کا بھی تعین کیا جائے گا۔ اس قانون کا اطلاق آزاد کشمیر سمیت پورے ملک میںہوگا۔