جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس غیر آئینی قرار،فروغ نسیم ،شہزاد اکبر کیخلاف کارروائی کا حکم

139

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک، خبر ایجنسیاں) جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس غیر آئینی قرار۔فروغ نسیم،شہزاد اکبر کے خلاف کارروائی کا حکم۔تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا جو 224 صفحات پر مشتمل ہے۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری کردہ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ جسٹس فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس بدنیتی پر مبنی قرار نہیں دیا جا سکتا، ان کے خلاف ریفرنس فیض آباد دھرنا کیس نہیں بلکہ لندن جائدادوں کی بنیاد پر بنا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں نظرثانی درخواستوں کو بدنیتی کے شواہد کے طور ہر پیش نہیں کیا جا سکتا، فیصلوں کے خلاف نظر ثانی درخواستیں دائر کرنا آئینی و قانونی حق ہے جب کہ ایسی کوئی شق نہیں کہ ججز کیخلاف ریفرنس کو خفیہ رکھنا چاہیے۔عدالت نے کہا کہ صدر مملکت نے ریفرنس میں نقائص کا جائزہ نہیں لیا، جج کے خلاف تحقیقات کیلیے وزیراعظم کی منظوری نہیں لی گئی، صدر نے ریفرنس پر کسی تھرڈ پارٹی سے رائے نہیں لی، نقائص سے بھرپور ریفرنس بھیجا گیا، جج کے خلاف تحقیقات کیلیے وزیر قانون سے اجازت لینا قانون کے مطابق نہیں، ریفرنس دائر کرنے سے پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نوٹس جاری کرکے جواب نہیں لیا گیا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ صدارتی ریفرنس اہلیہ جسٹس عیسی کی غیر ظاہر شدہ لندن جائدادوں پر بنایا گیا، لندن جائدادوں کی ملکیت کی وجہ سے قیاس آرائیوں نے جنم لیا، کونسل نے ماضی میں ایک جج کی غیر ملکی جائدادوں پو نوٹس لیا، کونسل نے اس جج کے خلاف کارروائی شروع کی تو وہ استعفا دے گئے، حکومت نے سندھ ہائیکورٹ کے جج کے خلاف بھی ریفرنس دائر کیا، حکومت کی جانب سے صدارتی ریفرنس کو بد نیتی نہیں قرار دیا جا سکتا۔ عدالت نے جسٹس فائز عیسیٰ کی شہزاد اکبر کو عہدے سے ہٹانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے شہزاد اکبر کی تعیناتی کو الگ سے چیلنج نہیں کیا اور جسٹس فائز عیسی نے فون ٹیپ کرنے کا کوئی الزام نہیں لگایا، موجودہ کیس میں شہزاد اکبر کی تعیناتی غیرقانونی قرار نہیں دی جا سکتی، معاون خصوصی کا عہدہ سیاسی، تعیناتی وزیراعظم کی صوابدید ہے۔ عدالت عظمیٰ نے تفصیلی فیصلے میں مزید کہا کہ ججز کا احتساب ایک جمہوری اور بیدار معاشرے کی ضرورت ہے، عدلیہ کی آزادی اس کی خلاف دائر کی جانے والی درخواستوں سے متاثر نہیں ہوتی، بلاتعصب، بلا تفریق اور منصفانہ احتساب آزاد عدلیہ کو مضبوط کرتا ہے، بلا تفریق احتساب سے عوام کا عدالتوں پر اعتبار بڑھے گا۔تفصیلی فیصلے کے مطابق ریفرنس آئین اور قانون کے خلاف دائر کیا گیا، صدارتی ریفرنس اور عام آدمی کی شکایت کے معیار میں فرق یقینی ہے، صدر مملکت کے ماتحت پوری وفاقی حکومت اور سرکاری ادارے ہوتے ہیں، صدر کی جانب سے نقائص سے بھرپور ریفرنس عدلیہ کیلیے نقصان دہ ہے۔عدالت نے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ پر لگائے گئے الزامات کو لندن جائدادوں کی خریداری کے ذرائع آمدن ظاہر کر کے عوام کے ذہن سے شک کو صاف کیا جا سکتا ہے۔ نجی ٹی وی چینل کے مطابق تفصیلی فیصلہ سور ۃ النسا ء کی آیات سے شروع کیا گیا ہے جس کے مطابق آزاد، غیر جانبدار عدلیہ کسی بھی مہذب جمہوری معاشرے کی اقدار میں شامل ہے۔اس کے علاوہ جسٹس فیصل عرب اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے میں الگ نوٹ تحریر کیا ہے۔تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ ریفرنس نمبر ایک 2019کو غیر قانونی قرار دیکر کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ درخواست گزار کو 17اگست 2019کو جاری نوٹس واپس لیا جاتا ہے۔ فیصلے کے سات روز کے اندر ان لینڈ ریونیو کمشنر خود متعلقہ نوٹسز قاضی فائز عیسی کی اہلیہ اور بچوں کو جاری کریں۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)نوٹسز میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں سے برطانیہ میں خریدی جائدادوں کے ذرائع آمدن پوچھے۔ یہ نوٹسز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سرکاری رہائش گاہ پر بھیجے جائیں۔ ایف بی آر کے نوٹسز پر جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ اور بچے متعلقہ تفصیلات پر جواب دیں۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ دستاویزی ریکارڈ کے ساتھ ایف بی آر کو جواب دیے جائیں،فیصلہ اگر کوئی ریکارڈ پاکستان سے باہر کا کہا ہے تو متعلقہ لوگوں کی زمہ داری ہے کہ بروقت فراہم کریں، انکم ٹیکس کمشنر اپنی کارروائی میں کسی موڑ پر التوا نہ دے۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ایک حاضر سروس جج کیخلاف انکوائری کرنا کونسل کا کام ہے نہ کہ کسی اور کا۔ کوئی بھی جج قانون سے بالاتر نہیں۔فیصلے کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ پبلک سرونٹ نہیں ہیں، انکی اہلیہ کیخلاف معاملہ جوڈیشل کونسل میں نہیں چل سکتا، صدر پاکستان نے ریفرنس دائر کرنے میں اپنے صوابدیدی اختیارات کا درست استعمال نہیں کیا۔ صرف یہ گرائونڈ ہے ریفرنس کو خارج کرنے کی، عدلیہ کی آزادی اس کی خلاف دائر کی جانے والی درخواستوں سے متاثر نہیں ہوتی،آزادعدلیہ اتنی نازک نہیں کہ ایک شکایت پرکمزورپڑجائے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ آزاد، غیر جانبدار عدلیہ کسی بھی مہذب جمہوری معاشرے کی اقدار میں شامل ہے۔ صدر آئین کے مطابق صوابدیدی اختیارات کے استعمال میں ناکام رہے، صدارتی ریفرنس آئین و قانون کی خلاف ورزی تھی، ریفرنس داخل کرنے کا سارا عمل آئین و قانون کے خلاف تھا۔فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ صدر نے آئین وقانون سے تجاوزکیا،کوئی جج قانون سے بالاترنہیں، شہزاداکبر کے ایسسٹ ریکوری یونٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، جسٹس قاضی فائزعیسی کیخلاف جمع کرایا جانے والاتمام مواد غیرقانونی قرار ہے۔فیصلے میں خفیہ معلومات اور راز افشا کرنے پر کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز،اہلیہ کے ٹیکس ریٹرن کی خفیہ معلومات کوافشا کرناجرم ہے، وزیرقانون فروغ نسیم اور مشیر احتساب شہزاد اکبر کا اقدام قابل تعزیرجرم کے زمرے میں آتا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر،انکم ٹیکس حکام بھی معلومات جاری کرنے میں شریک جرم ہیں۔ وزیرقانون،چیئرمین اے آر یو اور چیئرمین ایف بی آر کیخلاف کارروائی کی جائے۔خیال رہے کہ 19جون 2020کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میںسپریم کورٹ کے 10رکنی بینچ نے مختصر فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دیتے ہوئے خارج کر دیا تھا۔سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسی کی ریفرنس کالعدم قرار دینے کی درخواست منظور کرلی تھی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دینے کا فیصلہ تمام 10ججز متفقہ کاتھا۔7ججز نے قاضی فائز کی اہلیہ کے ٹیکس معاملات فیڈرل بورڈ آف ریوینو (ایف بی آر)کو بھیجنے کا حکم دیا تھا جبکہ ایک جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریفرنس کیخلاف قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست ناقابل سماعت قرار دی تھی۔