مسابقتی کمیشن کی رپورٹ اور شوگر مافیا

202

پاکستان میں شکر کا بحران بڑھتا جا رہا ہے اور کوئی حل سامنے نہیں آرہا ہے لیکن مسابقتی کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شکر کے بحران کا سبب شوگر ملز کا گٹھ جوڑ ہے ان ملز نے بحران کے دنوں میں 70 ارب روپے کا ناجائز منافع کمایا ہے۔ بڑی ملیں گنے کی کرشنگ کے فیصلے ملی بھگت سے کرتی ہیں۔ اسٹاک اور اعداد و شمار کو قیمتیں اور شکر کی فراہمی کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران شکر کی قیمت میں مجموعی اضافہ 38 روپے کلو تک ہوا ہے۔ اس سے شوگر ملز کی آمدنی (ریونیو) میں 40 ارب روپے کا ضافہ ہوا۔ یہی شوگر ملز درآمد و برآمد کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور یہی غیر مسابقتی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ مسابقتی کمیشن کی رپورٹ میں ہولناک انکشافات کیے گئے ہیں ان کی روشنی میں ایک ہی بات سامنے آئی ہے کہ شکر کے بحران کی ذمہ دار حکومت اور پارلیمنٹ میں بیٹھی پارٹیاں ہیں۔ ملک میں 78 شوگر ملز ہیں اور ان میں سے 50 فیصد براہ راست سیاسی رہنمائوں کی ہیں یا ان کے رشتے داروں کے نام ہیں۔ ان شوگر ملز نے حالیہ بحران میں 70 ارب کا ناجائز منافع بٹورا ہے۔ یہ شوگر ملز مالکان پی ٹی آئی حکومت کے اہم لوگ ہیں۔ مسلم لیگ ن کے اہم لوگ ہیں اور پیپلز پارٹی کے لوگ ہیں۔ شکر کے معاملے میں یہ تینوں پارٹیاں ایک ہیں۔ وزیراعظم مافیاز کو نہیں چھوڑوں گا کا نعرہ لگاتے رہے اور یہ شوگر ملز ملی بھگت کرکے قیمتیں بڑھواتی رہیں۔ مسابقتی کمیشن نے بتا دیا ہے کہ شوگر مافیا پی ٹی آئی، پی پی اور مسلم لیگ ن پر مشتمل ہے۔ ان ہی کے رشتے داروں کے پاس ٹھیکے اور کوٹے ہیں یہی لوگ اپنی مرضی سے درآمد و برآمد کرواتے رہے۔ اگر مسابقتی کمیشن کی رپورٹ پر کوئی فیصلہ کرنا مقصود ہو تو وزیراعظم عمران خان اس پر فیصلہ کر سکتے ہیں اور ساری مافیا کو لٹکا سکتے ہیں لیکن اگر انہوں نے ایسا کیا تو ان کی حکومت بھی لٹک جائے گی کیونکہ محض 6 ووٹوں کی برتری والی حکومت ہے۔ اس مافیا کا طریقہ کار اس قدر مضبوط اور گرفت مستحکم ہے کہ کوئی اس جال سے بھی باہر نہیں نکل سکتا۔ شوگر ملز کے (کارٹل) اتحاد کی نگرانی جے ڈی ڈبلیو کر رہی تھی جو جہانگیر ترین کی ہے اور وہ پی ٹی آئی کے اہم آدمی ہیں ان کی کمپنی کے ڈائریکٹر فنانس شکر کی پیداوار، اسٹاک، قیمتوں کی صورتحال، کرشنگ اور فروخت پر نظر رکھتے تھے تاکہ مارکیٹ میں چینی کی قیمت کم نہ ہو۔ یہ معلومات تمام شوگر ملز کے درمیان شیئر کی جاتی رہیں اس کارٹل کی شرط یہ تھی کہ جو مل معلومات فراہم نہیں کرے گی اس کی ایسوسی ایشن سے رکنیت ختم کر دی جائے گی۔ اس کے نتیجے میں فروری 2019ء میں شکر کی جو قیمت 60 روپے کلو تھی وہ ستمبر 2020ء میں 98 روپے تک پہنچ گئی اور اب 110 روپے فی کلو ہے۔ اس سارے بحران کا فائدہ صرف مافیا کو ملا ہے اور مافیا حکومت اور دو بڑی جماعتیں ہیں۔ رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ پنجاب کی 15 شوگر ملز نے جان بوجھ کر کرشنگ کو بند کیا۔ جبکہ اس گٹھ جوڑ نے مارکیٹ میں کہیں بھی قیمت کم نہ ہونے دی۔ اس گٹھ جوڑ نے 8 ماہ کے اسٹاک کو برآمد کرنے کا حکم جاری کر وایا اور شوگر ملز کے اس ٹولے نے یوٹیلیٹی اسٹورز کو پابند کیا کہ ہر شوگر مل سے مساوی مقدار میں شکر خریدیں۔ اس بات سے اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی قوم کتنی مشکل میں ہے۔ ایک طرف ریاست کے اوپر ریاست کا تنازع ہے تو دوسری طرف پارلیمنٹ کے اندر ریاست بیٹھی ہے۔ یہ نمائندے ہی لوٹ مار میں لگے ہوئے ہیں۔اس سے قبل بھی رپورٹوں میں یہی بتایا گیا تھا کہ شوگر مافیا وزیراعظم کے اردگرد اور پارلیمنٹ میں موجود ہے لیکن وزیراعظم نے کوئی کارروائی نہیں کی اب بھی نہیں کریں گے۔ کیونکہ پاکستان کے سیاسی نظام کا گھن چکر یہی ہے اقتدار میں لوگوں کو لانے اور نکالنے والے ایسے ہی لوگوں کو پارلیمنٹ تک پہنچاتے ہیں جن کی کرپشن ان کی گرفت میںہو اور وہ انہیں اس کے مزید مواقع بھی دیتے ہیں پھر اس کے ثبوت بھی اکٹھے کر لیتے ہیں۔ جب یہ لوگ پارلیمنٹ میں ہوں گے تو عوامی مفاد کے فیصلے کیونکر ہو سکیں گے۔ ایسے لوگوں کو پارلیمنٹ پہنچانے والے تمام الزامات سے محفوظ رہتے ہیں یہی لوگ ان ہی خرابیوں کا الزام عاید کرکے سیاسی بساط لپیٹ دیتے ہیں۔ ایک بار پھر ان آٹا اور چینی چوروں کو آگے رکھ کر سارا ملبہ سیاست پر گرایا گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ سیاسی رہنما اچھے کردار کے نہیں ہیں۔ انہیں اسی لیے آگے لایا جاتا ہے کہ ان کے نام پر سیاست کو بدنام کیا جا سکے۔ مسابقتی کمیشن کی رپورٹ پر عدالت کو بھی ازخود نوٹس لینا چاہیے۔ عدالتوں کے ریمارکس نے ہمیشہ لوگوں کی ہمت بڑھائی ہے لیکن ان ریمارکس کی طرح کے فیصلے اب تک سامنے نہیں آئے۔ وزیراعظم کو اندازہ نہیں جس مافیا کے گھیرے میں بیٹھے وہ مزے کر رہے ہیں یہی مافیا ان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا سبب بن رہی ہے۔حکومت کی نااہلی کا حال یہ ہے کہ معیشت، تجارت، روزگار، قیمتیں، امن وامان سب کچھ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اگر قانون کے ساتھ اسی طرح کھیلتے رہے تو سارا نقصان ملک کو ہوگا۔ عمران خان کی حکومت کی کوئی اہمیت نہیں اگر پی ٹی آئی میں سمجھدار لوگ ہیں تو وہ وزیراعظم کو سمجھائیں قانون پر عملدرآمد کروائیں سارے ریفرنس شریف خاندان کے لیے نہ تیار کریں۔