واشنگٹن (تجزیہ: مسعود ابدالی) امریکا میں 3 نومبر کو صدارتی انتخاب ہورہا ہے،اس انتخاب سے ساری دنیا کو دلچسپی ہے کہ گولان سے بولان اور شکاگو سے کالاشاہ کاکو تک سب ہی چچا سام کی زلفوں کے اسیر ہیں، اس ضمن میں آجکل الیکٹورل کالج کا ذکر بہت سناجارہا ہے۔ اس موضوع پر ہم نے چند ماہ قبل کچھ سطور نذر احباب کی تھیں جبکہ اب اس معرکے میں 10 دن باقی ہیں اور تادم تحریر ساڑھے 4کروڑ ووٹ بھی Early Voting پولنگ اسٹیشن پر بھگتائے جاچکے ہیں۔ امریکا میں صدارتی انتخاب کا نظام دوسرے ملکوں سے مختلف ہے جس کی وجہ یہاں کا منفرد وفاقی نظام ہے۔ امریکا 50 آزاد و خود مختار ریاستوں پر مشتمل ایک وفاق کا نام ہے۔ وفاق کی ہر ریاست کا اپنا دستور، جھنڈا اورمسلح فوج ہے۔ کرنسی اور خارجہ امور کے سوا بین الاقوامی تجارت سمیت تمام معاملات میں ریاستیں پوری طرح سے بااختیار ہیں۔ امریکی صدر وفاق کی علامت اور اس کی مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہے۔ صدر کے انتخاب میں ہر ریاست انفرادی اکائی کی حیثیت سے ووٹ ڈالتی
ہے اور اس مقصد کے لیے ایک کلیہ انتخاب یا الیکٹورل کالج تشکیل دیا گیا ہے۔ سیاسیات کے طلبا کے لیے امریکاکے کلیہ انتخاب کا ایک مختصر تعارف۔ کلیہ انتخاب میں ہر ریاست کو اس کی آبادی کے مطابق نمائندگی دی گئی ہے اور یہ اس ریاست کے لیے ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) اور سینیٹ کے لیے مختص نشستوں کے برابر ہے۔ امریکا میں ایوان نمائندگان کی نشستیں آبادی کے مطابق ہیں جبکہ سینیٹ میں تمام ریاستوں کی نمائندگی یکساں ہے اور ہر ریاست سے سے دو، دو سینیٹرز منتخب کیے جاتے ہیں۔ امریکا کے ایوان نمائندگان کی نشستوں کی مجموعی تعداد 435 ہے جبکہ 50 ریاستوں سے 100 سینیٹرز منتخب ہوتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت یعنی ڈسٹرکٹ آف کولمبیا المعروف واشنگٹن ڈی سی کے لیے انتخابی کالج میں 3ووٹ ہیں۔ گویا کلیہ انتخاب 538 ارکان پر مشتمل ہے اور صدر منتخب ہونے کے لیے انتخابی کالج کے کم ازکم 270 ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔ الیکٹورل کالج کی ہیت کو اس طرح سمجھیے کہ ٹیکسس (Texas) سے ایوان نمائندگان کے 36 ارکان منتخب ہوتے چنانچہ 2 سینیٹرز کو ملاکر انتخابی کالج میں ٹیکسس کے 38 ووٹ ہیں۔ انتخابی کالج میں سب زیادہ ووٹ نائب صدارت کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا دیوی کی ریاست کیلی فورنیا کے ہیں یعنی 55 جبکہ اسی پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن کی ریاست ڈیلوئیر کے صرف 3 ووٹ ہیں۔ جنوبی ڈکوٹا، شمالی ڈکوٹا، مونٹانا، وایومنگ، الاسکا، ، ورمونٹ کے بھی کلیہ انتخاب میں 3-3ووٹ ہیں۔ انتخابی ووٹوں کے اعتبار سے کیلی فورنیا پہلے، ٹیکسس دوسرے نمبر پر ہے جبکہ 29 ووٹوں کے ساتھ نیویارک اور فلورڈا تیسرے نمبر پر ہیں۔ الیکٹورل کالج میں سارے ووٹ جیتے والے کے لیے کا اصول اختیار کیا جاتا ہے اور ریاست میں جس امیدوار کو بھی برتری حاصل ہوئی اس ریاست سے انتخاب کالج کے لیے مختص سارے ووٹ جیتنے والے امیدوار کے کھاتے میں لکھ دیے جاتے ہیں۔ یعنی اگر کیلی فورنیا سے کسی امیدوار نے ایک ووٹ کی برتری بھی حاصل کرلی تو تمام کے تمام 55 الیکٹورل ووٹ اسے مل جائیں گے۔ صرف ریاست مین (Maine) اور نیبراسکا میں ایک تہائی الیکٹورل ووٹ ایوان نمائندگان کی حلقہ بندیوں کے مطابق الاٹ کیے جاتے ہیں ورنہ باقی سارے امریکا میں ریاست کے مجموعی ووٹوں کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے۔ دلچسپ بات کہ اس سال 3 نومبر کو ہونے والی ووٹنگ کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں بلکہ صدر اور نائب صدر کے انتخاب کے لیے 14 دسمبر کو تمام ریاستی دارالحکومتوں میں پولنگ ہوگی جس میں الیکٹورل کالج کے ارکان خفیہ بیلٹ کے ذریعے صدر اور نائب صدر کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔ ووٹنگ کے بعد نتائج مرتب کیے جائیں گے اور اسے ایک بکس میں بند کرکے وفاقی دارالحکومت بھیج دیا جائے گا جہاں 6 جنوری 2021ء کو سینیٹ کے چیئرمین (نائب صدر) کی نگرانی میں تما م ریاستوں سے آنے والے بکسوں کو کھول کر صدارتی انتخاب کا سرکاری نتیجہ مرتب کیا جائے گا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قانونی طور سے الیکٹورل کالج کے ارکان کسی مخصوص امیدوار کو ووٹ دینے کے پابند نہیں اور انتخاب بھی خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ 250سال کے دوران ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا کہ جب الیکٹورل کالج میں عوامی امنگوں کے برخلاف کوئی ووٹ ڈالا گیا ہو۔ 2016ء کے انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہلیری کلنٹن کو مجموعی یا پاپولر ووٹوں کے اعتبارسے ڈونلڈ ٹرمپ پر 28 لاکھ ووٹوں سے زیادہ کی برتری حاصل تھی لیکن جب تمام ریاستوں کے انتخابی ووٹ جمع کیے گئے تو صدر ٹرمپ کے الیکٹورل ووٹوں کی تعداد کلنٹن سے 77 زیادہ تھی۔اس سلسلے چند دلچسپ مثالیں پیش خدمت ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکا میں صدارتی انتخاب کی مہم سیاست سے زیادہ ریاضی کی مشق ہے۔ امریکی دارالحکومت میں ہلیری کلنٹن نے 90 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے یہاں مختص 3 الیکٹورل ووٹ اپنے نام کرلیے جبکہ مشی گن میں کانٹے دار مقابلہ ہوا جہاں ٹرمپ کو صرف 0.23 فیصد ووٹوں کی برتری کے عوض 16 انتخابی ووٹ ملے کچھ ایسا معاملہ فلوریڈا ور پنسلوانیہ میں ہوا جہاں باالترتیب 1.2اور 0.7فیصد برتری کے عوض 49 الیکٹورل ووٹ ٹرمپ کے کھاتے میں لکھ دیے گئے۔