محمود خان اچکزئی ٹھیک ہی تو فرما رہے ہیں کہ اردو ہماری زبان نہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے، ان کا یہ کہنا کیا ’’پورے‘‘ پاکستان کو گراں گزرا؟۔ جس جلسے میں ملک کی ایک دو نہیں 11 پارٹیوں کا اجتماع تھا کیا ان پارٹیوں کے کسی ایک رہنما نے انہیں ٹوکا، کیا بعد میں آنے والوں میں سے کسی نے ان کی بات سے اختلاف کیا اور کیا جتنی پارٹیوں کے ہمدرد، سپورٹرز اور کارکنان جلسہ گاہ میں موجود تھے وہاں سے کوئی اختلافی نعرہ بلند ہوا۔ مزے کی بات یہ ہے پاکستان کے جس کونے میں بھی ریلیوں، جلوسوں اور جلسوں میں رہنمایانِ قوم خطاب کرتے ہیں وہ سب اردو ہی میں کرتے ہیں۔ اتنا زیادہ کچھ ہوجانے کے بعد بھی پورے ملک میں جتنے بھی اخبارات، رسائل اور ٹی وی چینلز ہیں وہاں سے کوئی مؤثر آوازکا نہ ابھرنا کیا اردو سے محبت میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان بننے کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بے شک اس میں نظریہ اسلام ایک بنیادی محرک نظر آئے گا لیکن برصغیر کا کوئی ذی شعور اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ اس کا ایک بہت بڑا محرک اردو زبان بھی رہی ہے۔ پورا برصغیر اُس وقت بھی اور اب بھی دو واضح زبانوں میں منقسم تھا اور ہے۔ اردو کو ذریعہ تعلیم مسلمانوں نے بنایا ہوا تھا تو ہندی آج تک ہندوؤں نے اپنائی ہوئی ہے۔ اردو کو نہ تو ہندوستان میں سر پرستی حاصل ہو سکی اور نہ ہی بد قسمتی سے پاکستان میں اس کو سچے دل کے ساتھ فروغ دینے کی کوشش کی گئی جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے واضح فیصلے کے باوجود اردو کو ابھی تک نافذ نہیں کیا جا سکا۔ اردو صرف پاکستان یا ہندوستان ہی میں بولی اور سمجھی نہیں جاتی بلکہ دنیا کے تقریباً ہر ترقی یافتہ ملک میں اسے بولنے اور سمجھنے والے موجود ہیں جس کی وجہ سے پاکستان، ہندوستان، بنگلا دیش یا افغانستان سے دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں جانے والے ان ممالک کی زبان نہ جاننے کے باوجود بھی اپنے آپ کو بہت اجنبی محسوس نہیں کرتے۔ مڈل ایسٹ کے بہت سارے بازار، سنگا پور، ملائیشیا، امریکا، کینڈا اور برطانیہ کے بازاروں میں اردو بولنے اور سمجھنے والے خاصی تعداد میں مل جانے کی وجہ سے یہاں سے جانے والوں کو کسی بہت بڑی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اردو صرف پاکستان بھر میں رابطے کی زبان نہیں بلکہ پاکستان سے باہر کئی بڑی زبانوں کی طرح رابطے کی ایک بڑی زبان بنتی جا رہی ہے۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اردو واقعی ان خطوں کی زبان ہی نہیں تھی جن پر 1947 میں پاکستان بنایا گیا تھا۔ مشرقی پاکستان کی تقریباً 100 فی صد آبادی ’’بنگالی‘‘ تھی جبکہ مغربی پاکستان میں چار زبانیں، پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی بولی جاتی تھی۔ ان دونوں (مغربی اور مشرقی) خطوں میں اردو صرف ان ہی کی مادری زبان تھی جو ہندوستان کے ان علاقوں سے آکر آباد ہوئے تھے جہاں پاکستان نہیں بن سکا تھا۔ اصولاً تو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ بنگالی کو ملنا چاہیے تھا کیونکہ وہ اس وقت کل آبادی کا 56 فی صد تھے لیکن تمام آبادی مسلمان ہونے کے باوجود لسانیت کے زہر سے اس حد تک آلودہ تھی کہ مغربی پاکستانی بنگالی کو قومی زبان کسی طور قبول نہیں کر سکتے تھے البتہ اردو کی چھتری ایک ایسی چھتری ضرور ثابت ہوئی جس کے سائے تلے سارے مصلحت پسند اپنا سر چھپا سکتے تھے۔ وقتی اور مصلحت کی بنیاد پر کسی بات کو اپنا لینے کا وقفہ عارضی ہی ہوا کرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بنگال بنگالی بن گیا اور پاکستان بھر میں بھی ہر صوبے نے اپنی اپنی زبان کو اہمیت دینا زیادہ پسند کیا۔ اردو کے خلاف بغاوت تو بے شک برپا نہ ہو سکی لیکن یہ ضرور ہوا کہ اردو اور اردو بولنے والوں کے خلاف ایک ایسی فضا ضرور ہموار کی جاتی رہی جس کی وجہ سے اردو اور اردو بولنے والے اپنے ہی ملک میں اجنبی ہوتے چلے گئے۔ محمود خان اچکزئی کی اتنی زہریلی، غیر ذمے دارانہ اور غیر آئینی بات پر پورے پاکستان میں سنناٹا اس بات کا گواہ ہے کہ پاکستان کو نہ تو کبھی اردو پسند آئی اور نہ ہی پاکستان آجانے والے ’’لشکری‘‘ سہی معنوں میں پاکستانی سمجھے گئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسمبلیوں کا فلور ہو، عدالت میں لڑے جانے والے مقدمات ہوں یا عوام سے خطابات، سارے رہنمایان ’’صوبہ پرست‘‘ اپنا مافی الضمیر بیان تو اردو ہی میں کرتے ہیں لیکن نہ تو اردو کو یہاں کی زبان مان لینے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی قومی زبان۔ تھوڑی دیر کے لیے فرض بھی کر لیا جائے کہ اردو نہ تو قومی زبان ہے اور نہ ہی پاکستان کی، تو کوئی مجھے یہ بتائے کہ پھر ساری زبانیں بولنے والوں کی رابطہ زبان اور اس سے بڑھ کر قومی زبان کا درجہ پاکستان میں بولی جانے والی کس ’’بولی‘‘ کو دیا جا سکتا ہے۔