آنسوئوں کا نشان باقی ہے

223

شرَفِ عالم
میں: ارے تم رو رہے ہو ایسا کیا ہوگیا؟
وہ: کچھ دن پہلے ایک 5سال کی معصوم بچی اپنے پڑوسی کی ہوس کا نشانہ بن گئی گزشتہ سال راولپنڈی کی ایک چودہ سالہ لڑکی ایک نہیں اپنے کئی پڑوسیوں کے زیر دام آگئی چند ماہ قبل عدالت نے ایک ایسے شخص کو موت کی سز اسنائی جس نے اپنی سگی بھانجیوں کو بھی نہیں بخشا اُن بچیوں کی عمریں دس سال سے بھی کم تھیں عدالت میں ایک ایسا کیس بھی زیر سماعت ہے جس میں تین سگے بھائی اپنی بہن کو زندہ لاش سمجھ کر نوچتے رہے ان کے ماں باپ دنیا سے گزر چکے تھے انصاف کے کٹہرے میں ایک ایسی بیٹی بھی فریاد کناں ہے جو اپنے سگے باپ کی درندگی کا شکار بنی ایک اور مقامی عدالت نے ایک چودہ سالہ لڑکے کے ساتھ اجتماعی بدفعلی اور اس کے قتل کے جرم میں آٹھ میں سے چار لوگوں کو سزائے موت سنائی ہے ایک اور لڑکے نے اپنے ساتھ ہونے والی بدفعلی کی ویڈیو عام ہوجانے پر خودکُشی کرلی ہے چند سال قبل کورنگی کراچی کے ایک سرکاری اسپتال میں دانت کے دردکی شکایت لیکر آنے والی ایک جوان عورت کو نشے میں دھت ڈاکٹر اور عملے کے دیگر افراد نے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد زہر کا انجکشن لگا کر اسے ہمیشہ کے لیے ہر درد سے آزاد کردیا اور گزشتہ دنوں لاہور کے قریب دو بچوں کی ماںکے ساتھ پیش آنے والا واقعہ اور ڈھائی سالہ بچی کے ساتھ درندگی اور وحشیانہ قتل اس مکروہ فعل کی تازہ کڑی ہے۔
میں: یہ سب کچھ سن کر تو مجھے شدید غصہ آرہا ہے دل چاہ رہا ہے کہ ان تمام کو اپنے ہاتھوں سے عبرت ناک سزا دوں۔
وہ: یہ تو محض وہ واقعات ہیں جو ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہمیں پتا چل گئے ہیں ورنہ ہمارے معاشرے میں ان کی تعداد تو اتنی زیادہ بڑھ چکی ہے کہ شمار میں آنا محال ہے۔
میں: لیکن تم رو کیوں رہے ہو سیانے کہا کرتے تھے مرد کا رونا بزدلی کی علامت ہوتا ہے۔
وہ: میں اپنی بزدلی نہیں بے چارگی پہ رو رہا ہوں سماج کی بے حسی پہ رورہا ہوں نظام کی پامالی پہ رو رہا ہوں۔
میں: میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی، کیا صرف ارباب اختیار ہی نظام کواس نہج پر پہنچانے کے ذمے دار ہیں۔
وہ: یقینا نہیں، میں اور تم بھی شریکِ جرم ہیں کیوں کہ ہم کبھی خاموش رہ کر اور کبھی ظالم کو مظلوم بنا کر اس کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔
میں: لیکن جو بات تم کچھ لمحہ پہلے کررہے تھے عدالتوں نے ان میں سے کچھ درندہ صفت انسانوںکو کیفرکردار تک تو پہنچایا ہے؟
وہ: میرے دوست معاملہ عدالتی انصاف سے زیادہ ہمارے زوال پزیر سماجی رویوں اور اخلاقی پستی کا ہے سگا باپ، سگے بھائی، سگا ماموں اور…
میں: بس کرو میرے بھائی انسانوں کی یہ وحشت یقینا کسی بھی معاشرے میں قابل قبول نہیں میری روح تو یہ سب کچھ سوچ کر ہی کانپ جاتی ہے کہ انسان اس حد تک بھی گر سکتا ہے کاش میں اس سماج میں پیدا ہی نہ ہوا ہوتا۔
وہ: تم نے کبھی کبوتر کو دیکھا ہے کبوتر کو جب کسی چیز سے خطرہ ہوتا ہے نا تو وہ اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خطرہ ٹل جائے گا مگر کچھ ہی دیر بعد اس کی زندگی بے پر کے ہی پرواز کرجاتی ہے۔
میں: تم مجھے کبوتر کہہ رہے ہو۔
وہ: نہیں خود کو کہہ رہا ہوں، ہر اس فرد اور ادارے کو کہہ رہا ہوں جس کی منڈیروں پر ہم جیسے نجانے کتنے کبوتر اپنی آنکھیں بند کیے بس ُغٹرغوں کی گردان کیے جارہے ہیں۔
میں: تم کہنا کیا چاہ رہے ہو۔
وہ: میں یہ یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ انسان کی اس درندگی اور وحشت کی بنیادی وجہ گناہ گار کا قانون کی گرفت سے بچ نکلنے کے ساتھ ساتھ اپنی خواہش نفس کو خدا بنالینا بھی ہے تھوڑی دیر کے لیے غور کرو اگر خدا زمین پر انسان کو بھیجنے کے بعد اپنے برگزیدہ بندوں یعنی رسولوں اور پیغمبروں کے ذریعے زندگی کو درست طور پر گزارنے کے لیے اپنے احکامات نازل نہیں کرتا تو یہ دنیا اپنے قیام کے شاید چند سو سال کے اندر ہی خود انسان کے اپنے ہاتھوں ختم ہوجاتی۔
میں: میرے بھائی اپنی علمیت کا رعب مجھ پر نہ ڈالو اگر نفس کے اس گھوڑے کو قابو میں رکھنے کا کوئی عملی راستہ ہے تو بتائو؟
وہ: وہی بتانے کی کوشش کررہا ہوں تم نے کبھی سوچا ہے کہ اس قبیح جرم کو درندگی کیوں کہا جاتا ہے کیوں کہ انسان نما جانور ایک مظلوم کو کسی درندے کی طرح بھنبھوڑ کر اپنی ہوس مٹا رہا ہوتا ہے جیسے ایک موذی جانور کبھی انسان کو دبوچ لے تو وہ اپنے پنجوں اور دانتوں سے اسے لہولہان کردیتا ہے ایسی صورت میں انسان کے پاس بچنے کا کیا راستہ ہوتا ہے؟
میں: یہی کہ وہ اس جانور سے بچنے کی کوشش کرے اور موقع ملتے ہی کسی پتھر یا بھاری چیز سے اس کاسر کُچل دے۔
وہ: بالکل صحیح کیوں کہ اس کے جسم کے کسی اور حصے پر وار کرنے سے اس کے بچ نکلنے اور آئندہ کسی اور پر حملہ کرنے کا امکان باقی رہتا ہے۔
میں: یعنی تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ انسانوں کے ساتھ درندگی کے ہر اس مجرم کا سر کُچل دیا جائے اور اسے ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلادیا جائے۔
وہ: اور یہ کام سرِعام ہزاروں کے مجمع میں کیا جائے تاکہ معاشرے کے لیے عبرت کی مثال بن سکے ورنہ اس معاشرے میں ان مظلوموں اور لاچاروں کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی جن کی آنکھوں سے نہ رکنے والی اشکوں کی جھڑی ان کے چہروں پر آنسوئوں۔
کا مستقل نشان چھوڑ جائے گی۔ بقول شاعرؔ
اتنا رویا ہے اس کے چہرے پر
آنسوئوں کا نشان باقی ہے