اسلام آباد وقف ایکٹـ2020

276

12اکتوبر 2020کو اسپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر نے خلوص ومحبت کا اظہار فرمایا اورہمیں ایک عَشائیے میں شرکت کی دعوت دی، اس میں حکمراں جماعت کے وزرائے کرام شاہ محمود قریشی،اسد عمر،شفقت محمود ،ڈاکٹر پیر نورالحق قادری ،پرویز خٹک، علی محمد خان ،بابر اعوان صاحبان اور دیگر عمائدین کے ساتھ راقم الحروف ، مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا محمدحنیف جالندھری ، ڈاکٹر راغب حسین نعیمی اور پروفیسر ساجد میر بھی شریک تھے۔ عَشائیے کے بعد ایک مخصوص نشست ہوئی ، اس میں راقم الحروف کے ساتھ مفتی محمد تقی عثمانی ، مولانا محمد حنیف جالندھری، پروفیسر ساجد میراور جنابِ شفقت محمود شامل تھے۔اس نشست میں ہونے والی گفتگو کا ایک حصہ جنابِ شفقت محمود سے متعلق تھا، اس پر بعد میں اظہارِ خیال کروں گااور دوسرا حصہ میزبان اور اسپیکر قومی اسمبلی جنابِ اسد قیصر کے ساتھ تھا۔ ہم نے ان سے کہا: ’’پارلیمنٹ نے آپ کی اسپیکر شپ میں ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ایک ہی رات میں متعدد بل پاس کر کے انہیں ایکٹ کی شکل دی ،ان میں ایک ایکٹ وقف جائدادوں سے متعلق تھا، اس کی زد میں دینی مدارس وجامعات ، مساجد اور دیگر ادارے آتے ہیں، اس کی بابت وسیع مشاورت ہونی چاہیے تھی، انتہائی عجلت میں جو ایکٹ پاس کیا گیا ہے، اس کے بارے میں ہمیں تحفظات ہیں‘‘،انہوں نے کہا: ’’بعض ترمیمات آئی ہوئی تھیں ، لیکن چونکہ حزبِ اختلاف نے واک آئوٹ کردیا تھا، اس لیے وہ ترمیمات پیش نہ ہوسکیں ‘‘۔ میں نے کہا:’’آپ کسی سرکاری ممبر کے ذریعے ان ترمیمات کوپیش کرادیتے ، ایسا ہوتارہا ہے کہ سوالات کے وقفے میں اگر سوال کرنے والا ممبر موجود نہیں ہے، تو کسی اور ممبر سے کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ سوال پڑھ لے، البتہ اُسے ضمنی سوالات کی اجازت نہیں دی جاتی‘‘۔انہوں نے کہا:’’ بل میں ترمیم کے حوالے سے ایسا نہیں ہوسکتا‘‘، تاہم انہوں نے وعدہ کیا :’’ آپ حضرات جو ترمیم تجویز کریں گے، ہم اُسے پارلیمنٹ سے پاس کرادیں گے‘‘، یہ اُن کی طرف سے ایک اچھا ردِّعمل اور خیر سگالی کا اظہارتھا۔اس پر ہم نے اُن کا شکریہ ادا کیا، کیونکہ ہم بھی نیک نیتی سے مسئلے کا حل چاہتے ہیں، انتشار نہیں چاہتے۔ اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کا مستقبل قریب میں اجلاس متوقع ہے ، اس میں اس پر تفصیلی غور ہوگا اور حتمی تجاویز مرتب کر کے جناب اسپیکر قومی اسمبلی کی خدمت میں پیش کریں گے ، امید ہے وہ اپنے وعدے کو وفا کریں گے،سرِ دست ہم چند امور کی نشاندہی کر رہے ہیں:
پارلیمنٹ نے ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے منجملہ دیگر قوانین کے ’’وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے ملحقات کے لیے ’’وقف پراپرٹیز ایکٹ 2020‘‘ پاس کیا ہے،اس کا تعارف درج ذیل ہے:
(دفعہ نمبر1):’’یہ ایکٹ ’’وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ‘‘کی حدود میں وقف جائداد ایکٹ 2020کہلائے گا،اس کا دائرۂ کار وفاقی دارالحکومت کی حدود تک محدود ہوگااوریہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا‘‘۔ ظاہر ہے کہ آگے چل کر چاروںصوبوں ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے بھی اس کی متابعت میں ایسے ہی ایکٹ بنیں گے ۔ اس ایکٹ کی بعض دفعات پر دیندار طبقات ، مساجد ومدارس کے منتظمین اور دیگر اداروں کو تحفظات ہیں۔
اس کی دفعہ 3میں کہا گیا ہے: (۱)’’چیف کمشنر اسلام آباد ووفاقی دارالحکومت علاقہ جات (آئی سی ٹی )کے لیے ناظمِ اعلیٰ اوقاف کا تقرر کرے گا اور بذریعہ حکم ایسے تمام وقف املاک جو آئی سی ٹی کی علاقائی حدود کے اندر واقع ہیں، بشمول اس سے متعلق تمام حقوق، اثاثہ جات، قرضہ جات ، واجبات اور ذمہ داریاں اس کے زیراختیار دے سکتا ہے، (۲)کسی شخص کا ناظم اعلیٰ کے طور پر تقرر نہیں کیا جائے گا تاوقتیکہ وہ ایک مسلمان ہو اور ایسی قابلیت کا حامل ہو جیساکہ وفاقی حکومت کی جانب سے صراحت کی گئی ہو،(۳)ناظمِ اعلیٰ، اوقاف آئی سی ٹی: ناظمِ اعلیٰ کے نام سے ایک واحد کارپوریٹ ادارہ ہوگا جو دوامی تسلسل اور مخصوص مہر کا حامل ہوگا اور وہ اپنے کارپوریٹ کے نام سے مقدمہ دائر کرسکے گا اور اس کے خلاف بھی مقدمہ ہوسکے گا،(۴)ناظمِ اعلیٰ، وفاقی حکومت کی نگرانی میں اپنے فرائض سر انجام دے گا‘‘۔
مندرجہ بالا دفعہ تین(۲) میں ناظمِ اعلیٰ کی مطلوبہ کوالیفکیشن میں اُس کا مسلمان ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایکٹ صرف مسلمانوں کے اوقاف سے متعلق ہے ، غیر مسلموں کے اوقاف پر ان قوانین کا اطلاق نہیں ہوگااور نہ اُن پر ایسی پابندیاں عائد ہوں گی جو اس قانون کا تقاضا ہیں۔
مذکورہ ایکٹ میں دفعہ 21کی شق2کے تحت ناظمِ اعلیٰ کے دائرۂ اختیار کے بارے میں درج ہے:’’ناظمِ اعلیٰ اوقاف کسی ایسی وقف جائداد کے بارے میں، جسے انتظامیہ نے اپنے کنٹرول میں نہیں لیایا اُس کا ایسا ارادہ نہیں ، وقف کے اہتمام ، کنٹرول اور دیکھ بھال کے بارے میں ایسی ہدایات جاری کرسکتا ہے جنہیں وہ ضروری سمجھے، بشمول ایسے خطابات، خطبات اور لیکچرز پر پابندی کے بارے میں جوپاکستان کی خودمختاری اور یکجہتی کے بارے میں متعصبانہ ہوں یامختلف مذہبی فرقوں یا گروہوںکے بارے میں نفرت انگیزی کے جذبات پر مبنی ہوں،اسی طرح ایسے شخص کو اپنے خطابات یا لیکچرز کے ذریعے جماعتی سیاست میں ملوث ہونے سے روک سکتا ہے،اوقاف کا ناظم ایسے احکامات اور ہدایات کی تعمیل کرائے گا‘‘۔
اس میں محکمۂ اوقاف کے ایک افسر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ازخود یہ فیصلہ کرے گا کہ آیاکوئی خطبہ ، خطاب یا لیکچر ملکی خودمختاری اور سا لمیت کے منافی ہے، مذہبی اور گروہی فرقہ واریت پر مبنی ہے اور اس سے جماعتی سیاست کا تاثر ملتا ہے ،یہ تو اس کے ہاتھ میں بلیک میلنگ کا ایسا ہتھیار آجائے گاکہ جسے چاہے دھمکاتا پھرے ، وہ اپنے اس عمل کے بارے میں خود کسی کو جوابدہ نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ علماء اوراعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین پر مشتمل ایسا با اختیار کمیشن ہو ، جس کے پاس یہ افسر شکایت درج کرے اور اپنی شکایت کے ساتھ ثبوت وشواہد بھی پیش کرے،وہ کمیشن متعلقہ عالم یا خطیب کا موقف سن کر فیصلہ کرے ۔قرآن وحدیث اور فقہ اسلامی کی بیشتر تعلیمات ایسی ہیں کہ جنہیں سن کر کوئی شخص ازخود رائے قائم کرسکتا ہے کہ اس سے فلاں کو ہدف بنایا گیا ہے۔
مذکورہ بالا ایکٹ کی دفعہ9بعنوان ’’متفرق معلومات‘‘ میں کہا گیا ہے:’’دفعہ 9 کے تحت واقف یا ناظمِ وقف رپورٹنگ اتھارٹی کو’’ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ نمبر7 مجریہ2010‘‘کے تحت بیان کردہ طریقۂ کار کے مطابق اپنے ذرائع کو واضح کرے گا‘‘۔ اس کی رُو سے دینی اداروں کو عطیات دینا ایک مشکل امر بن جائے گا، سیلانی ٹرسٹ اوردیگر رفاہی اداروں کے لنگر خانے جن کی وزیرِ اعظم تحسین کرتے ہیں، بند ہوجائیں گے یایہ قانون بلیک میلنگ کا ذریعہ بن جائے گا اور Pick & Chooseکے ذریعے جسے چاہیں گے ہدف بنائیں گے۔
نیب کے قانون کے برعکس اسلامی قانون اور جدید فلسفۂ قانون یہ ہے کہ آپ بے قصور ہیں تاوقتیکہ آپ کا قصور ثابت نہ ہوجائے، منی لانڈرنگ کے قانون کا وقف پر مبنی دینی مدارس وجامعات ،مساجد اور رفاہی اداروں پر اندھا دھند اطلاق بے چینی کا سبب بنے گا ، حکومت کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں بے اعتمادی پیدا ہوگی ، لوگ سمجھیں گے کہ مذہب دشمنی کی جارہی ہے۔ ہاں! کسی کے بارے میں آپ کے پاس منی لانڈرنگ کے ثبوت وشواہد ہوں ، تو ضرور ایکشن لیں اور عدالت سے رجوع کریں، قانون کو روبہ عمل لائیں۔
میرپور آزاد کشمیر کے علاقے چکسواری میں آستانۂ عالیہ فیض پور شریف ہے، اس کے سجادہ نشین پیر محمد حبیب الرحمن محبوبی نے بریڈ فورڈ میں ایک عالی شان مسجد اوردینی ادارہ’’ الصفہ اسلامک سنٹر ‘‘بنایا ہے، جو برطانیہ کے ایک دوبڑے اداروں میں سے ایک ہے۔ اُن کے پاس برطانوی اداروں کے ذمے داران آئے اور پوچھا: ’’آپ اتنے مالی وسائل کہاں سے لائے ہیں‘‘،انہوں نے جواب دیا: ’’ہم برسرِ عام چندے کی اپیل نہیںکرتے ، نہ کسی کے پاس جاکر چندہ مانگتے ہیں، یہ ہمارے بزرگوں کا طریقہ نہیں ہے، لوگ خود آکر دیتے ہیں ،ہم عطیات بنک میں جمع کرتے ہیں اور بنک اکائونٹ سے نکال کر استعمال کرتے ہیں‘‘۔ وہ مطمئن ہوکر چلے گئے، مگر ہمارے ہاں نوکر شاہی کا مزاج مختلف ہے ، ڈرانا دھمکاناان کا مشغلہ ہے، اسی لیے بدعنوانیاں جنم لیتی ہیں۔
مذکورہ ایکٹ میں کہا گیا ہے: ’’چیف کمشنر اسلام آبادخود کو حاصل اختیارات کے تحت ایک حکم نامہ جاری کرے گا، جس کے تحت وفاقی دارالحکومت کے لیے ایک چیف ایڈمنسٹریٹر اوقاف مقرر کرے گا،جو وفاقی دارالحکومت میں قائم وقف جائدادوں کے تمام حقوق ،اثاثہ جات ، اس پر واجب الادا قرض اور اس کی ذمے داریوں اور فرائض سے متعلق ہوگا۔دفعہ نمبر5:(۱)چیف کمشنر کی منظوری سے چیف ایڈمنسٹریٹر وقتاً فوقتاً وفاقی دارالحکومت کے لیے مختلف عہدوں اور گریڈز کے لیے افسران کا تقرر کرے گا جو اُس درجے کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور الائونسز کے مساوی ہوگا۔ (۲)اس ایکٹ کے تحت تمام ملازمین ضابطۂ فوجداری کی دفعہ 21مجریہ1860 کے مطابق سرکاری ملازم شمار ہوں گے۔ وقف منیجر ،خواہ وہ واقف ہو یاکوئی اور یا اُس کا نامزد نمائندہ، ایسی وقف جائداد کو چیف ایڈمنسٹریٹر کے پاس مجوزہ طریقۂ کار کے مطابق رجسٹرڈکرے گا۔اس ایکٹ میں چیف کمشنر اسلام آباد کو ہر وقف کو اپنے کنٹرول میں لینے کے لامحدود اختیارات دیے گئے ہیں، جبکہ شریعت میں وقف کا متولی ہونے کا پہلا اختیار واقف کو حاصل ہے، بشرطیکہ وہ دیندار اور متدیّن ہو ،خائن نہ ہو، اگر اس کی خیانت ثابت ہو اور تولیت کا کام اچھی طرح انجام نہ دیتا ہو تو اُسے معزول کر کے دوسرے شخص کو متولی بنایا جائے، تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے: ’’واقف نے خود کو متولی مقرر کیا تو یہ بالاجماع جائز ہے اور اس طرح اگر واقف نے کسی کو وقف کا منتظم (متولی) مقرر کرنے کی شرط عائد نہ کی ہو تو امام ابویوسف کے نزدیک واقف ہی کے لیے ولایت ثابت ہوگی ،یہی ظاہرِ مذھب ہے ،بحوالہ النھرالفائق،(رد المحتار علی الدرالمختار،ج:6،ص:491)‘‘۔وقف کی شرائط اور مصارف متعین کرنے کا اختیاربھی واقف کو حاصل ہے، مسلّمہ فقہی اصول ہے: ’’واقف کی مقرر کردہ شرائط نصِ شارع کی طرح نافذ ہوتی ہیں، بشرطیکہ اُن میں کوئی بات خلافِ شرع نہ ہو‘‘۔
وقف کا دائرۂ اختیار اتنا وسیع کرنے سے پہلے محکمۂ اوقاف کے بارے میں ایک مطالعاتی کمیشن قائم کرنا چاہیے ، حقیقتِ حال تو یہ ہے کہ محکمۂ اوقاف کے زیرِ انتظام کئی مساجد میں تعمیر ومرمت ،رنگ روغن،کارپیٹنگ اور الیکٹریفکیشن وغیرہ لوگوں کے چندے سے کی جاتی ہے،بلکہ بعض جگہ اوقاف کے ملازمین ڈیوٹی نہیں دیتے، لوگ پرائیویٹ طور پر امام وخطیب مقرر کرتے ہیں۔ اس ایکٹ کے تحت نئے اداروں کا قیام بھی انتہائی دشوار ہوجائے گا۔