اگرچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کی سفید فام عیسائی بالادستی اور منافرت پسندانہ ثقافت صرف فرانس سے مخصوص نہیں ہے بلکہ پورے یورپ اور امریکا میں وسیع پیمانے پر موجود ہے لیکن اسلام کے خلاف جس نفرت کا اظہارفرانس میں ہو رہا ہے، اتنی شدید نفرت اسرائیل کے سوا اور کہیں نظر نہیں آتی۔ فرانس میں اس وقت حکومت کی طرف سے ’’علیحدگی کے قانون‘‘ کے نام پر کی جانے والی انتہاپسندانہ کوششوں کی وجہ سے ’’اسلامو فوبیا‘‘ کے رجحانات عروج پر ہیں۔ کئی دانشوروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے نمایندوں نے صدر عمانویل ماکروں کے اس بل پر شدید تنقید کی ہے، جس کے تحت اسلام کے ماننے والوں کو علیحدگی اور تنہائی کی طرف دھکیلے جانے کی پالیسی کو قانون کی شکل دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
واضح رہے کہ ایک ادارے سی سی ایف (Collectif contre Islamphobie en France) نے فرانس میں اسلاموفوبیا کے حوالے سے 2019ء میں پیش آنے والے 1043 واقعات درج کیے اور ان کے مطابق 2017ء کے بعد اس قسم کے واقعات میں 77 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان میں 68 جسمانی حملوں کے واقعات، 618 امتیازی سلوک، 210 نفرت انگیزی اور نسلی منافرت کے واقعات، 93 بدنامی، 22 مسلم مقدس مقامات کی توڑ پھوڑ اور 32 دہشت گردی کے خلاف جنگ سے وابستہ امتیازی سلوک کے واقعات درج کیے گئے۔
فرانسیسی حکومت اورکٹر عیسائی مگر نام نہاد سیکولرحکومتی عہدیداروں کا میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرنا معمول بن چکا ہے۔ درحقیقت مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کا یہ معمول نہ صرف مسلمانوں کے خلاف ادارہ جاتی امتیازی سلوک کوجواز مہیا کرتا ہے بلکہ فرانس کے اندر اور باہر ان کے خلاف تشدد کا باعث بنتا ہے، جس میں 2019ء میں پیش آنے والے واقعات شامل ہیں۔ اس واقعے میں مسجد پر فائرنگ کی گئی تھی اور اس کے مشہور امام کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور مسجد پر حملہ کیا گیا تھا جس میں 4 افراد زخمی ہوئے تھے۔ فرانس کے باہر یعنی نیوزی لینڈ میں جب کرائسٹ چرچ کی مساجد میں 2019ء کے قتل عام کرنے والے دہشت گرد نے 51 مسلمان نمازیوں کو شہید اور 49 کو زخمی کر دیا تھا تو اس نے فرانسیسی اسلاموفوبیائی مفکر رینود کیموس Renaud Camus کا حوالہ دیا تھا جس سے متاثر ہو کر اس نے یہ انسانیت سوز عمل کیا تھا۔
جین رینود گیبریل کیموس ایک فرانسیسی مصنف اور ناول نگار ہے جو ’’گریٹ ریپلیسمنٹ تھیوری Great Replacement Theory‘‘ کا خالق ہے۔ اس تھیوری کے مطابق یورپ میں تارکین وطن کی غیر سفید فام آبادی اور خاص طور پر مسلمانوں کی آبادی تیزی سے پھیل رہی ہے اور وہ یورپی شناخت کو ختم کر رہی ہے۔ نیز یہ غیر سفید فام آبادی، سفید فام آبادی کی جگہ لے رہی ہے جس سے سفید فام آبادی کو اپنی بقاکیلئے خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ اس تھیوری کو دائیں بازو کی سفید فام عیسائی تنظیمیں اپنے انتہاپسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے ایک نظریے کے طور پر استعمال کر رہی ہیں اور سفید فام لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد کرنے اور نفرت کا اظہار کرنے پر اکسا رہی ہیں۔ واضح رہے کہ اس وقت فرانس میں 57 لاکھ سے زائدمسلمان مقیم ہیں، جو فرانس کی کل آبادی کا تقریباً 9 فیصد ہیں اور یورپ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی فرانس میں مقیم ہے۔
فرانس میں دائیں بازو کی انتہاپسند عیسائی تنظیموں کے عہدیداروں کے ساتھ ان تنظیموں سے تعلق رکھنے والے حکومتی نمایندگان بھی مسلمانوں کے خلاف کھل کر نفرت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل فرانس کے جنوبی شہر Beziers کے مئیر رابرٹ مینارڈ نے اپنے شہر کے مسلمان طلبہ کی تعداد پر پریشانی اور نفرت کا اظہار کیا تھا۔ اس سلسلے میں اسے عدالت بھی طلب کیا گیا لیکن کوئی سزا نہیں سنائی گئی۔ بعد ازاں اس نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی بات کو دہرایا کہ ’’میرے شہر کے مرکز میں 91 فیصد بچے مسلمان ہیں اور ظاہر ہے یہ ہمارے لیے ایک مسئلہ ہے، مسلم اکثریتی آبادی ہماری آبادی کی شناخت کو متاثر کر رہی ہے اورہم اسے مزید برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ رواداری کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔‘‘
اکتوبر 2019ء سے فرانسیسی صدر عمانویل ماکروں اور ان کے وزیر داخلہ کرسٹوفر دہشت گردی کو مسلمانوں کے عقیدے، اور ثقافتی علامات مثلاً ڈاڑھی، برقع، حجاب، نماز اور حلال کھانا وغیرہ سے جوڑ رہے ہیں۔ حال ہی میں صدر ماکروں نے اعلان کیا کہ اسلا م ایک ایسا مذہب ہے جو آج پوری دنیا میں بحران کا شکار ہے اور ہم اپنے ملک میں یہاں کے اسلامی اداروں اور مساجد وغیرہ کو بیرونی اثرات سے آزاد کر ارہے ہیں۔ فرانس میں ماکروں کوئی پہلا حکمران نہیں ہے، جو اسلام کے بارے میں اس طرح کے بیانات دے رہا ہے بلکہ یہ فرانس کے سیکولر ازم کی پرانی روایت ہے۔ نبولین بونا پارٹ نے بھی جب 1798ء میں مصر اور فلسطین پر قبضہ کے لیے حملہ کیا تھا اور ان سے یہی جھوٹ بولا تھا کہ وہ مصریوں اور فلسطینیوں کو مملوکوں سے آزاد کرانے آرہا ہے۔ اور جب فرانس نے 1830ء میں الجیریا پر حملہ کیا تھا تو اتنی ڈھٹائی دکھائی کہ جھوٹ بولےبغیر ہی مسلمانوں کو لُوٹا اورعبادت گاہوں کو تباہ و برباد کیا اور جب 1871ء میں الجیرین عوام المکرانی کی قیادت میں فرانس کے خلاف جمع ہو گئے تو فرانس نے 10 لاکھ سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا جو الجیریا کی اس وقت کی آبادی کا ایک تہائی حصہ بنتا تھا۔
فرانس کے صدر عمانویل ماکروں نے ایک طرف ’’اسلام کے بحران‘‘ کااعلان کیا اور دوسری طرف ان کی اپنی ’’ شائونسٹ سیکولرسوچ کے بحران‘‘ کا ثبوت انہیں 75 سالہ فرانسیسی خاتون سوفی نے اس وقت مہیا کر دیا جب طیارے سے اترتے ہی صدر ماکروں انہیں گلے لگانے کے لیے آگے بڑھے اور انہوں نے ماکروں کی طرف توجہ دینے کے بجائے کہا کہ ’’میری نماز کا وقت نکل رہا ہے مجھے نماز ادا کرنی ہے‘‘۔ سوفی 4 برس سے مالی کے ایک اسلامی سخت گیر گروپ کی تحویل میں تھیں اور انہیں دسمبر 2016ء میں مالی کے شہر گائوسے تحویل میں لیا گیا تھا۔ ابھی حال ہی میں مالی اور فرانس کی حکومتوں کی مشترکہ کوششوں سے 100 افراد کے بدلے میں سوفی کو رہا کیا گیا ہے۔ سوفی کا بیٹا ایک طیارے سے مالی گیا تھا اورفرانس میں سوفی کی رہائی کو اس قدر اہمیت دی جارہی تھی کہ صدر ماکروں خود سوفی کے استقبال کے لیے ایئر پورٹ پہنچے ہوئے تھے۔
اسلامی سخت گیر موقف رکھنے والے گروپ کی تحویل کے دوران سوفی Sophie Petroninپر ان کےمذہبی ماحول اور اچھے سلوک کا ایسا اثر ہوا کہ اس نے عیسائی مذہب چھوڑ کر اسلام کو اپنا لیا اور اپنا نام بھی سوفی سے تبدیل کرکے مریم رکھ لیا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل صومالیہ کی الشباب تنظیم کے ہاتھوں اغوا ہونے والی اٹالین خاتون سلویا رومانو اور طالبان کی قید میں رہنے والی ایک معروف برطانوی صحافی بھی اسلام قبول کر چکی ہیں۔ فرانسیسی ویب سائٹ (Revolutionpermanente.tr) نے سوفی کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہ مالی ملک کے عوام کے حق میں دعائیں مانگ رہی ہیں جن کی وساطت سے اسے اسلام قبول کرنے کا موقع ملا۔
For Mali, I will pray, implore Allah’s blessing and mercy, because I am a Muslim, you say Sophie but you have Mariam in front of you”
”سوفی کی یہ باتیں سننے کے بعد اسلامی سخت گیر موقف کے حامی گروپ کا سوشل میڈیا پر یہ ٹیگ وائرل ہو گیا ہے کہ ’’اسلام بحران میں نہیں ماکروں کا سیکولر شائونزم بحران کا شکار ہے‘‘۔
فرانس کو یورپ اور مغربی دنیا میں پھیلتی ہوئی اسلامی تعلیمات سے اس قدر تشویش ہے کہ فرانس کے ایک اہم نوآبادیاتی جریدے کے ایڈیٹر ایڈمنڈ فیزی Edmond Fazy نے مغربی دنیا میں مسلمانوں کی آبادی کی تحقیقات شروع کر دی ہیں اور ساتھ ہی اس کے بہت سے معاونین اسلامی تعلیمات کے ایسے جوڑ توڑ کرنے کے لیے مسلمان علمائے دین کی خدمات حاصل کرنے میں کوشاں ہیں جو ایک ایسے اسلام کی تعبیر و تشریح پیش کریں جو مغرب کے لیے قابل قبول اور قابل برداشت ہو۔ اس طرح اسلام کے نام پر ایک نئے مذہب کی تخلیق پر کام ہو رہا ہے جو یورپ کے سیکولر ازم کے ساتھ سمجھوتا کر سکے اور تعلیمی و تحقیقی اداروں میں پڑھائی جانے والی سوشل تھیوریز کے مطابق ہو۔ اس سلسلے میں فرنچ نوآبادیاتی ایکسپرٹ Edmond Doutte کے مشوروں کو بہت اہمیت دی جارہی ہے جو الجیریا میں مسلم سخت گیر موقف رکھنے والے لوگوں سے نبٹنے میں مہارت اوروسیع تجربہ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسری اہم شخصیت M William Marcaisہے جو الجیریا میں فرانس کی طرف سے قائم کردہ ایک مدرسے کے ڈاریکٹر رہ چکے ہیں۔ اس مدرسے میں فرانس کے لیے قابل قبول ماڈرن اسلام کےمطابق الجیرین مسلم ججوں کو ٹریننگ دی جاتی تھی۔
فرانسیسی ریاست کی طرف سے اپنے مسلمان شہریوں کے خلاف جاری ادارہ جاتی امتیازی سلوک میں ماکروں کے دور حکومت میں کسی قسم کی کمی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ فرانس آج بھی اسلام سے نفرت، دشمنی اور شاونزم کی آگ میں اسی طرح ڈوبا ہوا ہے جیسے انقلاب فرانس سے پہلے ڈوبا ہوا تھا۔ فرانس جس چیز کو اسلام کےبحران کانام دے رہا ہے وہ درحقیقت فرانسیسی شاونزم کا بحران ہے اور وہاں کی عیسائی بالادستی کی حرکات یہ ثابت کرتی ہے کہ فرانس ایک نوآبادیاتی طاقت ہے جس کو اپنے ماضی کے اس سنہرےدور کے ساتھ چمٹے رہنے کی خواہش ہے جس میں وہ اپنے مفادات کے تحت لاکھوں کریبین، سائوتھ ایسٹ ایشین اور افریقین کو قتل کرتے رہے ہیں۔ اگر فرانس واقعی کسی بحران کے حل کی طرف بڑھنا چاہتا تو اسے سب سے پہلے ان لاکھوں مظلوموں کے قرض چکانے چاہییں تھے جنہیں اس نے ماضی میں قتل کیا اور لُوٹا۔