آج کل جماعت اسلامی نے دو بڑی تحریکوں کا آغاز کر رکھا ہے ایک کراچی کو حق دو، دوسرا سود حرام ہے۔ ہمارے ملک میں جماعت اسلامی واحد سیاسی اور مذہبی جماعت ہے جو عوام کی حقیقی ترجمانی کرتی ہے۔ ایک خاص بات جو میں نے نوٹ کی وہ یہ کہ اس جماعت کے کارکن نہایت ایماندار، فرض شناس اور کام سے مخلص ہوتے ہیں۔ نارتھ کراچی سیکٹر 11-K کے ذمے دار شرافت بھائی کا کردار اس سلسلے میں مثالی ہے، سو روپے کی پرچی تک دیتے ہیں، کھالیں ہوں، زکوٰۃ و فطرہ ہو وہ گرائونڈ پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔ میں پسند اور ناپسند کی بنیاد پر کبھی کالم نہیں لکھتا جو حق اور سچ ہوتا ہے وہی لکھتا ہوں۔ کراچی کے پرآشوب دور میں جب میں حق اور سچ لکھتا تھا تو مجھے دھمکیوں کے فون آتے تھے مگر میں اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔ آج ڈرانے والے خود ڈرتے نظر آتے ہیں۔ عوامی ریفرنڈم کے پہلے دن میں نے شرافت صاحب کے لگائے ہوئے پولنگ بوتھ پر کراچی کے حق میں ووٹ دیا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ماضی کی جماعت اسلامی اور موجودہ جماعت اسلامی میں بڑا فرق ہے۔ جماعت کی شوریٰ کو اس کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تبدیلی لے کر آنی چاہیے۔ اس قوم نے ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو آزمالیا ہے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) نے قوم کو کیا دیا۔ یہ فیصلہ تو قوم کو کرنا ہوگا موروثی سیاست سے باہر نکل کر قومی سوچ کو اجاگر کرنا ہوگا کراچی میں جماعت اسلامی کے نگران حافظ نعیم الرحمن ایک نہایت قابل اور تجربے کار رہنما ہیں عوامی مسائل پر ان کی گہری نظر ہے۔ کے الیکٹرک کے مسئلے پر، بحریہ ٹائون کے مسئلے پر، اسٹیل مل کی نج کاری
کے مسئلے پر وہ ایک سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے تھے آج بھی وہ جس انداز سے کراچی کا مقدمہ لڑ رہے ہیں وہ قابل تقلید عمل ہے۔ جماعت اسلامی ایک بڑی مذہبی اور سیاسی جماعت ہے اور مذہبی مسائل پر بھی یہ جماعت آواز حق بلند کرتی رہتی ہے۔
آج کل ایک مہم سود حرام ہے شروع ہو چکی ہے۔ اسٹیٹ بینک کا افتتاح بانی پاکستان قائد اعظمؒ نے 1948ء میں کیا تھا اس وقت اس وقت آپ نے بلا سود معیشت کا اعلان کیا۔ دستور پاکستان کی دفعہ 38-F میں درج ہے کہ ریاست رباء کو جتنی جلد ممکن ہوگا ختم کرے گی۔ وفاقی شرعی عدالت نے 1991ء میں سود کے خاتمے کا فیصلہ دیا مگر افسوس ہم آج تک سود سے نجات نہ پاسکے۔ وزیراعظم عمران خان نے پہلی مرتبہ ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا ہے اب ریاست مدینہ میں سود کا کیا کام؟ ان کو فوری طور پر سود کے خاتمے کا اعلان کرنا چاہیے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کو سود سخت ناپسند ہے۔ قرآن کریم میں سورہ البقرہ کی آیات 275-76 میں میرے ربّ نے فرمایا جو لوگ سود کھاتے ہیں ان کا حال اس شخص کا سا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر باولا کردیا ہو اور اس حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں تجارت بھی تو آخر سود جیسی چیز ہے۔ حالاں کہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام۔ لہٰذا جس شخص کو اس کے ربّ کی طرف سے نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے سود خوری سے باز آجائے تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا سود کھا چکا اس کا
معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے وہ جہنمی ہے۔ جہاں وہ ہمیشہ رہے گا، اللہ سود کو منہ پر مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہمارا ملک 72 سال سے سودی نظام پر چل رہا ہے۔ بینکوں میں عوام سے دھوکا کیا جاتا ہے لکھا ہوتا ہے بلا سود بینکاری ملک کا کوئی بینک سود سے پاک نہیں ہے مارک اپ نام رکھنے سے دھوکا نہیں دیا جاسکتا۔ آج جو ملک و قوم کا حال ہے اس کی ایک وجہ IMF اور ورلڈ بینک کو دیے جانے والا سود بھی ہے۔ قرضے اتارنے کے لیے سود پر سود ادا کرنا پڑتا ہے ان کے ملک کے نظام میں سود جائز ہے مگر اسلامی ریاست میں سود کو حرام ہونا چاہیے۔ پاکستان میں میری اطلاع کے مطابق میزان بینک بلا سود بینکاری کررہا ہے خیر جو بھی بلا سود کام کرے گا وہ فلاح پائے گا قوم نے 72 سال میں صرف مسائل ہی دیکھے ہیں نااہل حکمرانوں نے ملک و قوم کے ساتھ مذاق کیا ہے۔ تحریک انصاف ایک تبدیلی کی امید تھی قوم عمران خان کو مسیحا سمجھ رہی تھی کہ وہ آتے ہی جادو کی چھڑی پھیریں گے اور قوم خوشحال ہوجائے گی وزیراعظم حاکم وقت ہوتا ہے اس کا کام حکم دینا ہوتا ہے ان پر عمل کروانا ریاستی اداروں کا ہوتا ہے۔ اگر وزیر اپنے محکموں پر توجہ ویسے وقت دیں کرپشن کو روکیں نااہل افسران کو فارغ کریں تو کچھ بہتری ہوسکتی ہے جس وزیر کے زیر اثر جو محکمے ہیں ایک ایک دن ان محکموں میں جا کر دورہ کریں، ایماندار، فرض شناس افسران کی حوصلہ افزائی کریں محکمے کو گندا کرنے والوں کو فارغ کریں۔ خان صاحب تبدیلی تو آج بھی آسکتی ہے مگر آپ کو پوری ٹیم تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ آج غریب مر رہا ہے خدا کے لیے کچھ کریں اپوزیشن کا کام شور کرنا ہے اس کو کرنے دیں۔