مودی کا اصل یار کون؟

297

وزیر اعظم عمران خان نیازی نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے بھی بھارت سے دوستی کی بہت کوشش کی مگر وہ پاکستان کا دشمن ہے ۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے افغانستان کو استعمال کر سکتا ہے ۔ بھارت نظریاتی طور پر ہمارادشمن ہے اور پاکستان کے خلاف ہے اس لیے اس سے دوستی کی ہماری کوششیں نتیجہ خیز نہ ہو سکیں ۔ہم پھر بھی دوستی کی کوششیں کرتے رہیں گے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے جو کچھ کہا ہے وہ انکشاف نہیں اعتراف ہے ۔ ان کے اس بیان کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف زیر بحث آ گئے ۔ میاں نواز شریف کو مودی کا یار اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہ مودی کی والدہ کو ساڑھیاں اور دیگر تحائف بھیجتے تھے ۔ اپنے گھر کی تقریب میں مودی اور ان کے وفد کو بلاتے تھے ۔ ویزوں کی پابندی سے استثنا دینا بھی اختیارات کا ناجائز استعمال تھا ۔ اس پر نواز شریف کو مودی کا یار قرار دیا گیا تھا ۔ اسے مودی یا بھارت کے لیے نواز شریف کی ہمدردی یا بھارت کی یاری قرار دیا جا سکتا ہے اورجب نواز شریف یہ سب کر رہے تھے اس وقت عمران خان یہ کہا کرتے تھے کہ بھارت سے دوستی کی جتنی کوششیں کی جائیں وہ ہمارا دشمن ہی رہے گا ۔ تو پھر دو سال سے زیادہ عرصے عمران خان نے بھارت سے دوستی کی کوششیں کیوں کیں ۔ کیا انہیں معلوم نہیں تھا کہ بھارت پاکستان کا دشمن ہے اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔ بلکہ وہ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بھارت پاکستان کا نظریاتی دشمن ہے ۔ پھرنظریاتی دشمن سے دوستی کی کوششیں کیوں کی گئیں ۔ لیکن اگر مودی کی یاری کا موازنہ کیا جائے تو دو سال میں عمران خان نے مودی کی یاری کا جو حق ادا کیا ہے وہ نواز شریف یا بے نظیر کے حصے میں بھی نہیں آیا ۔ بے نظیر بھٹو نے راجیو گاندھی کی آمد پرکشمیر ہائوس کے بورڈ اُتروا دیے تھے ۔ نواز شریف نے واجپائی کی آمد پر لاہور میں اس کا سرخ قالین سے استقبال کیا تھا اور لاہور شہر کی زمین جماعت اسلامی کے کارکنوں اور رہنمائوں کے خون سے سُرخ کر دی تھی ۔ ان دونوں کی کوششوں کو کمزور حکمران کی جانب سے کمزور سفارتکاری یا بلا وجہ کی روا داری قرار دیا جا سکتا ہے ۔ لیکن جناب وزیراعظم ان تمام حقائق سے واقف ہونے کے باوجود بھارت سے دوستی کی کوشش میں کیا کچھ گنوا چکے ہیں ۔ انہیں اس کا احساس بھی ہے یا نہیں ۔ بھارت نے گزشتہ برس5 اگست کو قانون تبدیل کیا کشمیر کی حیثیت تبدیل کی ۔ پاکستان کی طرف سے زبانی احتجاج ہوا ۔ پھر بھارت نے کشمیر میں ہندوئوں کو داخل کرنا شروع کیا ۔پاکستان خاموش رہا ۔ کشمیریوں کا طویل ترین لاک ڈائون کیا گیا ۔ پاکستان کی طرف سے خاموشی رہی بلکہ خیر سگالی کے اقدامات کیے گئے ۔ گزشتہ برس9نومبر کو کرتار پور بار ڈر کھولا ۔ بھارتی عدالت عظمیٰ نے عین اسی روز بابری مسجد کا فیصلہ سنا کر یہ بتا دیا کہ انتہا پسندوں کا مسجد شہید کرنے کا عمل درست تھا اور مسلمانوں کاکوئی حق نہیں۔ پاکستان اس پر بھی خاموش رہا ۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر چھوٹی سی مہم چلائی لیکن پاکستان کی جانب سے ڈھیلا رد عمل گیا ۔ بھارتی مظالم اور کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے کسی جارحانہ اقدام کے بجائے محض نمائشی کام کیے گئے جن سے کشمیریوں کوکوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آدھے گھنٹے قوم کو سڑک پرکھڑا کر کے احتجاج کس قسم کا احتجاج تھا ۔ نہ بھارت کے خلاف کوئی سفارتی مہم چلائی نہ اس کے سفیر کو ملک بدر کیا۔بھارت نے عمران خان کے دور میںکشمیر پر عملاً قبضہ کر لیا ہے یہاں سے صرف بیان بازیاں ہوتی رہیں ۔ تو پھر نواز شریف اور عمران خان میں سے کس کو مودی کا یار قرار دیا جائے ۔ اس کافیصلہ عمران خان نیازی ، ان کی کابینہ اور ان کے سلیکٹرز خودکر لیں ۔ قوم اگر کسی وقت جائزہ لینا چاہے تو وہ بھی لے لے ۔کشمیر کے معاملے میں کس حکمراں نے غفلت اورکس نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے ۔ پاکستانی حکمرانوں نے بھارت کے معاملے میں غفلت ہی نہیں مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا ہے ۔ عمران خان نے یہ تو کہہ دیا کہ بھارت سے دوستی کی کوششیں کیں لیکن وہ یہ توبتائیں کہ بھارت سے دوستی کی کوششیں کیوں کی گئیں ۔ ان کی آنکھوں کے سامنے بھارتی حکمران کشمیر ہڑپ کرتے رہے پاکستانی علاقوں پرہزاروں مرتبہ گولہ باری کی گئی ۔ آئے دن سرحدی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں اور ہمارا وزیر اعظم پوچھتا ہے کہ کیا میں بھارت پر حملہ کر دیتا ۔ بھارت نے جتنے حملے کیے ہیں ان کی روشنی میں وہ خود بتائیں کہ کسی ملک کے ازلی دُشمن کے خلاف کارروائی کی کیا حدہوتی ہے ۔ بھارت نے کیا تمام حدیں عبور نہیں کر لیں ۔ پھر بھی اس سے دوستی مودی کی یاری نہیں؟؟یہ فیصلہ کون کرے گا کہ مودی کا اصل یار کون ہے؟ بات در اصل یہ ہے کہ مودی کے یار کا تعین اپنی جگہ لیکن کشمیریوں اور پاکستان کے یارتو بن جائیں۔