ڈھاکا/تہران/ریاض/بغداد/ابوطبی/اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک+خبرایجنسیاں+نمائندہ جسارت) فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی تشہیر اور صدر ایمانویل ماکرون کے اسلام مخالف بیان پر مسلم ممالک میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔ایران نے فرانسیسی سفیر کو طلب کرلیا، بنگلادیش، عراق، تیونس اور فلسطین میں احتجاجی مظاہرے جب کہخلیجی ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم جاری ہے۔بنگلا دیشی دارالحکومت ڈھاکا میں لاکھوں افراد نے فرانسیسی صدر کیخلاف
احتجاجی ریلی نکالی۔ احتجاج میں شریک افراد نے فرانس مخالف نعرے لگاتے ہوئے فرانسیسی اشیاء کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی فرانسیسی پرچم اور صدر ایمانویل ماکرون کے پتلے بھی نذر آتش کیے۔ مظاہرین نے ماکرون کے خلاف نعرے بازی کی اور مطالبہ کیا کہ وہ اسلام کے بارے میں اپنے بیانات واپس لیں۔ پولیس حکام کے مطابق آئندہ جمعہ کو بنگلادیش بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے جا سکتے ہیں۔قبل ازیں ایران نے بھی تہران میں تعینات فرانسیسی سفیر کو طلب کر کے شدیداحتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ فرانسیسی صدر انتہا پسندی کو ہوا دے رہے ہیں، آزادی اظہار رائے کی آڑ میں دنیا بھر کے مسلمانوں کی حرمت کی توہین کی گئی جس سے ہر مسلمان دل گرفتہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نوآبادیاتی حکومتوں کے ذریعے طاقت اور اختیار حاصل کرنے والے مسلمانوں کو اپنی نفرت کا شکار بناتے ہیں،آزادی اظہار رائے کی آڑ میں ایک ارب 90 کروڑ مسلمانوں اور ان کی حرمت کی توہین کی گئی جس سے صرف انتہا پسندی کو تقویت ملے گی۔ادھر عراق کے دارالحکومت بغداد میں بھی فرانسیسی سفارت خانے کے باہر سیکڑوں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا، مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے قائدین نے فرانسیسی صدر سے متنازع بیان پر مسلمانوں سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔احتجاج کے پیش نظر بغداد میں فرانسیسی سفارتخانے پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی۔مظاہرین نے فرانسیسی پرچم اورایمانویل ماکرون کے پتلے نذر آتش کیے۔ تیونس میں بھی فرانسیسی سفارتخانے کے سامنے احتجاجی مظاہرہ ہوا۔دوسری جانب خلیجی ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم زور پکڑ گئی ہے، کویت کے بعد قطر، بحرین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں فرانسیسی اشیاء کے بائیکاٹ کی مہم جاری ہے۔ کویت، الجزائر اور فلسطین سمیت کئی ممالک کی مارکٹس اور سپر اسٹورز سے بھی فرانسیسی مصنوعات ہٹا دی گئی ہیں۔فرانسیسی صدر کے بیان کو دنیا بھر کے مسلم ممالک میں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شام اور لیبیا سمیت کئی عرب ممالک میں ماکرون کی تصویر کو جلایا گیا ۔ مسلم دنیا میں فرانسیسی اشیاء کا بائیکاٹ کرنے کی مہم بھی جاری ہے جب کہ جرمن خبررساں ادارے ڈی ڈبلیو کے مطابق سعودی عرب نے پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت کی مذمت توکی ہے تاہم دیگر مسلم ممالک کے فرانس کے خلاف اقدامات کے مطالبے کی حمایت نہیں کی۔سعودی عرب دنیا کا تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بھی ہے اور خلیج کے خطے کی سب سے بڑی سیاسی اور اقتصادی طاقت بھی۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے دو مقدس ترین مقامات بھی سعودی عرب ہی میں ہیں۔اس پس منظر میں دنیا کے متعدد مسلم اکثریتی ممالک اور مغربی دنیا کی نظریں اس طرف لگی ہوئی تھیں کہ یورپی یونین کے رکن ملک فرانس میں خاکوں کی اشاعت اور پھر اسی تناظر میں فرانس اور ترکی کے مابین پیدا ہونے والے سیاسی تنازعے کو سامنے رکھتے ہوئے سعودی حکومت کیا موقف اختیار کرتی ہے۔اس سوال کا جواب منگل کو اس وقت مل گیا جب سعودی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ سعودی عرب ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔ یہ حوالہ بظاہر اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ آزادی اظہار رائے کا حوالہ دے کر گستاخانہ خاکے دکھانے والے جس فرانسیسی ٹیچر کا ایک نوجوان مسلم حملہ آور نے سر قلم کر دیا تھا، سعودی حکومت اس کے اس وحشیانہ قتل کی غیر مشروط مذمت کرتی ہے۔سرکاری میڈیا پر جاری ہونے والے سعودی وزارت خارجہ کے بیان میں یہ بھی کہا گیاہے کہ آزادی اظہار اور ثقافت کو ایسے احترام، باہمی برداشت اور امن کی وجہ بننا چاہیے، جو نفرت، تشدد اور انتہا پسندی جیسے رویوں کے تدارک میں مدد دے سکیں۔ڈی ڈبلیو کے مطابق مختلف خبر رساں اداروں نے لکھا ہے کہ سعودی حکومت نے فرانس میں خاکوں کی اشاعت کی مذمت تو کی ہے لیکن 2 باتیں اہم ہیں۔ ایک تو سعودی حکومت نے اس پیغمبراسلام کی گستاخی پر ترکی اور فرانس کے مابین پیدا ہونے والے سیاسی تناؤ میں دونوں میں سے کسی ایک کی بھی یکطرفہ طور پر حمایت نہیں کی اور دوسرے یہ کہ کئی مسلم اکثریتی ممالک کے اس مطالبے میں بھی ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی کہ اس معاملے میں مل کر فرانس کے خلاف اقدامات کیے جانا چاہییں۔دوسری جانب چیچنیا کے سربراہ اورطاقتور سمجھے جانے والے لیڈر رمضان قدیروف نے فرانسیسی صدر کے موقف کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اپنے ایک بیان میں ان کاکہنا تھاکہ فرانس کے صدر خود بھی دہشت گرد نظر آنے لگے ہیں جو مسلمانوں کو اشتعال دلارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اشتعال انگیزی کی حمایت کرنے سے درپردہ وہ خود مسلمانوں کو ایسے جرائم کرنے پر ابھار رہے ہیں،ماکرون کے موقف نے تقریبا 2 ارب مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے اور اس طرح کی حکمت عملی کے “افسوسناک’’ نتائج نکل سکتے ہیں۔چیچن سربراہ کا یہ بھی کہنا تھااس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے ماکرون کو ایسی اشتعال انگیزی اور عقائد پر حملے بند کرنا ہوں گے، دوسری صورت میں ان کا تاریخ میں شمار ان صدور کی فہرست میں ہو گا جنہوں نے پاگل پن کے فیصلے کیے۔رمضان قدیروف نے فرانسیسی صدر کو مخاطب کرتے ہوئے مزیدکہاکہ آپ آسانی سے اپنے آپ کو اپنے ملک میں دہشت گردی کا قائد اور معمار کہہ سکتے ہیں۔ادھر وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت اجلاس میں وفاقی کابینہ فرانس سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا فیصلہ نہیں کرسکی۔ بعض وزرا، قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر ، تمام اپوزیشن جماعتوں نے حکومت سے فرانس کے سفیر کو پاکستان سے بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا ہے،پاکستانی عوام میں فرانس کے صدر کیخلاف ترک صدر اور کویت کی قیادت کے بارے میں زبردست پذیرائی پائی جاتی ہے دونوں ممالک نے فرانس کے صدر کو سخت جواب دیا ہے، کویت نے فرانس کی اقتصادی ناکہ بندی کا اعلان کیا ہے۔