بھارت امریکا سیٹلائٹ ڈیٹا معاہدہ: پاکستان اور چین کے لیے خطرہ

501

بھارت اور امریکا کے درمیان پاکستان دشمنی اور چین کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت کا مقابلہ کرنے اور بھارتی میزائلو ں اور ڈرونز کو خامیوں سے پاک زیادہ بہتر سیٹلائٹ ڈیٹا تک رسائی کے لیے ایک اہم معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں۔ اس سلسلے میں معلوم ہوا ہے ’’بھارت اور امریکا نے 2010 میں خارجہ اور دفاع کے وزیروں کی سطح پر 2+2 مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس کے تحت بحری، سائبر اور خلائی سیکورٹی جیسے اہم امور پر عسکر ی ماہرین کے درمیان 10سال تک جاری مذاکرات کے بعد ایک حتمی معاہدہ تیار کرلیا گیا ہے جس کے تحت ’’بھارت کی ہوائی اور بری افواج کو پنٹا گون کنٹرول اینڈ سسٹم اور بھارتی بحریہ کو امریکی پیسیفک کمانڈ ہوائی کے جزیرے سے منسلک کر دیا جائے گا‘‘۔ دونوں ملکوں کے درمیان ’’بیسک ایکسچینج اینڈ کوآپریشن ایگریمنٹ‘‘ (بی ای سی اے) پر دستخط ہوئے ہیں لیکن اس میں کیا کچھ ہے اس بارے میں مکمل معلومات ابھی تک بھارت کو بھی نہیں دی گئی ہیں۔ اس معاہدے پر دستخط سے بھارت کو ’’امریکا کے سیٹلائٹ ڈیٹا تک رسائی‘‘ مل سکے گی، جس سے اسے اپنے ڈرونز اور میزائل سسٹم کی خامیوں کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ وزیر اعظم مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال فروری میں اپنی ملاقات کے دوران بھی اس معاہدے پر جلد دستخط کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ بھارت سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بھارت کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اس معاہدے کی مخالفت کر رہی اور اس کا کہنا ہے یہ معاہدے ایک تاریخی غلطی ہوگی۔ وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر دفاع مارک ایسپر اپنے بھارتی ہم منصب بالترتیب سبرامنیم جے شنکر اور راج ناتھ سنگھ سے 2+2 وزارتی ڈائیلاگ میں شرکت کے لیے دہلی میں ہیں۔ یہ سب کچھ کامیابی کے کس قدر قریب ہے! اس بارے میں 16ستمبر 2020ء کو آسیان پوسٹ نے اپنے ایک اداریے میں لکھا: ’’مسئلہ یہ ہے کہ امریکا، آسٹریلیا، انڈیا اور جاپان کے سیکورٹی مفادات
میں پوری طرح سے یکسو نہیں ہیں۔ اتحاد کے باقی ممالک کے مقابلے میں بھارت اور جاپان کو چین کی جانب سے زیادہ شدید اور فوری خطرہ ہے‘‘۔ لیکن چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کے مدنظر ایشیائی خطے میں بھارت کے کردار کے حوالے سے امریکا کے نقطہ نظر میں قابل ذکر تبدیلی اور گرم جوشی آئی ہے۔ امریکا کے نائب وزیر خارجہ اسٹیفن ای بیگن 12 اکتوبر کو بھارت کے تین روزہ دورے پر آئے تھے جبکہ اس سے ایک ہفتے قبل بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ٹوکیو میں مائیک پومپیو سے ملاقات کی تھی۔ اور اب 26 اکتوبر کو امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع بھارت کا دو روزہ دورہ ختم کر کے روانہ ہو گئے ہیں۔ یہ مذاکرات اور دورے امریکا کی جانب سے چین کے خلاف تقریباً ہر محاذ پر بالواسطہ جنگ شروع کر دینے کے بعد ہوئے ہیں اور انہیں بیجنگ کے لیے ایک واضح اسٹرٹیجک اشارے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ پاکستان اور چین میں بھارت اور امریکا کے مابین اس تیزی سے بڑھتی ہوئی قربت کو تشویش کی نگاہ سے بھی دیکھا جا رہا ہے۔
امریکی انتظامیہ جس انداز میں بھارت پر خصوصی توجہ مرکوز کررہی ہے اور اس نے دونوں ملکوں کے اعلیٰ سطح کے وزراء اور حکام کے درمیان بات چیت کا سلسلہ تیز کردیا ہے، اس سے بھارت میں امریکا کی اچانک بڑھتی ہوئی دلچسپی پر تشویش ہونا فطری ہے۔ پہلی بات تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ امریکی انتظامیہ خطے میں اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے ازسرنو اقدامات کر رہی ہے لیکن بھارت در پردہ پاکستان اور افغانستان کے خلاف بڑے محاذ بنانے پر کام کر رہا ہے۔ لیکن امریکا، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل کواڈ (QUAD) ممالک کے اتحاد کو خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ امریکی سینیٹ نے گزشتہ ہفتے تائیوان کو ہتھیاروں کے تین نظام فروخت کرنے کی منظوری دے کر چین کو مزید ناراض کردیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو محدود کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ سیکورٹی تعلقات کو مزید مستحکم کررہا ہے۔ امریکا اس صورتحال سے اپنی تجارتی سرگرمیوں میں بھی اضافہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ امریکی کمپنیاں 2007 کے بعد سے اب تک بھارت کو 21 ارب ڈالر سے زیادہ کے فوجی سازو سامان فروخت کرچکی ہیں اور امریکا بھارت کو ایسے معاہدوں پر دستخط کرنے کے لیے زور دے رہا ہے جن کے تحت جدید ترین فوجی آلات کے بہتر استعمال کے لیے حساس اور خفیہ معلومات کے تبادلے کی گنجائش ہوگی۔ بھارت بھی مجوزہ 2+2 وزارتی مذاکرات کو کافی اہمیت دے رہا ہے۔ نئی دہلی میں ستمبر 2018 اور واشنگٹن میں دسمبر 2019 میں ہونے والے سابقہ دو مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں کافی پیش رفت ہوئی ہے اور تمام شعبوں میں ادارہ جاتی فریم ورک کو مستحکم کرنے میں مدد ملی ہے۔
سیٹلائٹ ڈیٹا تک رسائی لء معاہدے میں بھارت کی دوبارہ دلچسپی کا مقصد اپنی سرحدی حدود کو محفوظ رکھنے کے لیے بین الاقوامی حمایت اور مدد حاصل کرنا اور چین کے خلاف ایک مضبوط فورس تیار کرنا ہے۔ لیکن صورتحال اس لحاظ سے غیر یقینی ہے کہ کیا بھارت چین کے خلاف اپنے اقدامات کو اس حد تک آگے لے جائے گا کہ اس کے چین کے ساتھ جاری مذاکرت پر خراب اثر پڑے؟ تجارت، سیکورٹی اور مبینہ جاسوسی جیسے معاملات پر آسٹریلیا اور چین کے اختلافات نے آسٹریلیا کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے قریب کر دیا ہے۔ آسٹریلیا کے ٹی وی چینل اے بی سی نے ستمبر میں لکھا تھا کہ چین کو یہ امید نہیں تھی کہ ایسا کوئی اتحاد وجود میں آ سکتا ہے۔ لیکن انہوں نے ہمیں ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے۔
یہ ساری صورتحال یہ بتا رہی ہے کہ بھارت اور امریکا چین کے خلاف ایک بڑی جنگ کی تیاری کے لیے ’’سیٹلائٹ ڈیٹا معاہدہ‘‘ کر رہے ہیں لیکن بھارت کا مقصد پاکستان کو تباہ کرنے اور امریکا افغانستان میں اپنی ہاری جنگ کو جیتنے کے لیے دوبارہ خطے کا امن تباہ کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر متحرک ہوگئے ہیں اور پاکستان میں اپوزیشن اور حکومت کو آپس کی جنگ سے فراغت نہیں ہو رہی ہے۔ دنیا اپنی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے زمینی، بحری اور فضائی جنگوں سے نکل کر سیٹلائٹ جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے اور ہمارے حکمرانوں نے نیب نیب کھیل ہی کو دنیا میں پنپنے کا سب سے بڑا ہتھیار سمجھ رکھا ہے۔ کیا اس طرح بھی ہوتا ہے اس طرح کے ’’کھیلوں‘‘ میں۔