صدر فرانس! تمہاری دنیا ہم تم پر اُلٹ دیں گے

391

صدر فرانس! منتظر رہو اس وقت کے جب تمہاری توہین آمیز دنیا ہم تم پر اُلٹ دیں گے۔ یہ وہ قرض ہے جو ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ایمانویل ماکروں، صدر فرانس، تم نے کہا ’’اگر مسلمانوں کو فرانس میں رہنا ہے تو انہیں اپنے دین کی توہین پر خاموش رہنا ہوگا‘‘۔ ایمانویل! اگر تمہیں دنیا میں رہنا ہے تو رسالت مآبؐ کا احترام کرنا ہوگا۔ آپؐ کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونا ہوگا۔ تم آقائے دوجہاںؐ کا سراپا بگاڑ کر سمجھتے ہو کہ کوئی کارنامہ انجام دیا ہے، ایمانویل تمہیں خبر ہی نہیں سراپائے حبیبؐ مسلمانوں کے حواس، عقل، وجدان، عشق اور روح کے آثاروں میں اتنا اندر اترا ہوا ہے کہ وہاں تک کسی کی رسائی نہیں کہ اسے بگاڑ سکے۔
ایما نویل! تم وہ پرفریب طاقت ہو جو غنڈوں کے پاس ہوتی ہے، جن کی اپنی کوئی آزادانہ رائے نہیںہوتی۔ تم اہل مغرب جس آزادی اظہار کے دعوے کرتے ہو وہ مطلق نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو شیکسپیئر کا ڈراما ’’مرچنٹ آف وینس‘‘ اسٹیج کرکے دکھائو جس کا ایک کردار شائی لاک یہودی ہے۔ ہولو کاسٹ کی تردید کرکے دکھائو۔ تم عیسائی، یہودیوں کی کٹھ پتلیاں ہو۔ تم قدرت کی عطا کردہ بہترین صلاحیتوں کو اپنے عوام کو گمراہ کرنے اور ان کے دلوں کو خراب کرنے کے لیے استعمال کررہے ہو۔ تم ان کے ساتھ کھڑے ہو جو فرانس، مغرب اور پوری دنیا کا ماحول خراب کرنے پرتلے ہوئے ہیں۔
آج مسلمان عاجز ہیں، لیکن کب تک؟ تم کیا سمجھتے ہو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے یہ دنیا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اہل مغرب کو سونپ دی ہے۔ شیطان کے حوالے کردی ہے۔ تم مسلمانوں کو ہمیشہ نفرت کا نشانہ بناتے رہوگے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے، ہرگز نہیں ہے۔ جلد یا بدیر مسلمان پھر اس دنیا کے تاجدار ہوں گے۔ اگر ایسا نہیں ہوسکا پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تمہاری اس نفرت زدہ دنیا سے ہی، تمہارے گلی کوچوں سے ہی، مسلمان اٹھتے رہیںگے اور توہین رسالت کے مرتکب کا سر قلم کرتے رہیںگے۔ تم خاکے بناتے بناتے عاجز آ جائوگے ہم نفرت کے اس سیلاب کارخ خود تمہاری طرف پھیرنے سے عاجز نہیں آئیںگے۔ ہم مسلمان آپؐ کے ساتھ انتساب اور آپ کی ناموس کی حفاظت میں جان دینے کو باعث فخر سمجھتے ہیں۔ اس شوق واشتیاق کا تم ادراک بھی نہیں کرسکتے۔
ایما نویل! مسلمانوں کو اس مسلم قیادت پر قیاس مت کرو جن کی وفاداریاں تم اہل مغرب کے ساتھ ہیں۔ جو تمہارے ایجنٹ ہیں۔ جو تمہاری داخلی اور خارجی سازشوں کی پراسرار، مبہم اور الجھائو کی شکل میں تکمیل کررہے ہیں۔ ان کے ساتھ معاملات کرکے تمہاری نیلگوں آنکھیں چمکنے لگتی ہیں۔ توہین رسالت کے واقعات پر جن کے بیانات، تقریروں اور مذمتوں کا مقصد مسلمانوں کو ٹھنڈا کرنا ہوتا ہے۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ تم فرانس نہیں پورے مغرب کی عمارتوں کو عالی مرتبتؐ کے توہین آمیز خاکوں میں لپیٹ دو، سید المرسلینؐ کی ذات تو درکنار آپؐ کے تذکرے کو مسلمانوں کے دلوں میں بے وقعت نہیں بناسکتے۔ آپؐ کی آتش عشق کو گناہ گار سے گناہ گار مسلمان کے دل میں خاک نہیں کرسکتے۔
صدر فرانس تم نے ریاستی سطح پر گستاخی کا ارتکاب کیا ہے۔ اس کا جواب مسلم دنیا سے ریاستی سطح پر ہی آنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ مغرب کی دنیا ہے۔ مغرب کی قومی ریاستیں ہیں۔ ان قومی ریاستوں اور جمہوری حکمرانوں کے نزدیک جن کی تعلیم وتربیت تم نے کی ہے رسول اللہؐ کی بابرکت اور دلکش ذات کی حرمت کی حفاظت سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ نامراد حکمران اپنی تمام قوتیں جمع کرکے اتنا کرسکتے ہیں کہ اپنی رائے عامہ کو پرسکون کرنے کے لیے دبی دبی یا پرشور آواز میں تمہاری مذمت کرلیں یا او آئی سی جیسے بیہودہ ادارے کا اجلاس بلالیں وہ بھی اگر تم نے اجازت دی تب۔ جس میں ان کی تقاریر کا محور رسول کریمؐ کی ذات اقدس کی توہین کا بدلہ لینا نہیں بلکہ اس طرح کے واقعات کو مسلم اور مغربی دنیا کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش قرار دینا ہوگا۔ یہ حکمران بے نقاب ہوچکے ہیں۔ مسلم امہ کے دل ان سے نفرت کی آگ میں جل رہے ہیں۔ جلد ہی مسلم عوام ان حکمرانوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے چیل کووں کے آگے ڈال دیں گے۔ تمہارے دانشور تاریخ کو شناخت کی جنگ قرار دیتے ہیں، اگر ایسا ہے بھی تو جان لو، ہم مسلمانوں کی شناخت یہ لسانی قومیتیں اور قومی ریاستیں نہیں ہیں ہماری شناخت، ہمارا ماضی، ہمارا حال اور مستقبل، ہمارے پلڑے کا وزن سرکار دو جہاںؐ کی محبت، عظمت کا اعتراف اور گواہی ہے۔
ایما نویل! اہل مغرب نے ہمیں کبھی کالونائزیشن سے مسخر کیا اور کبھی ڈی کالونائزیشن کے فریب سے۔ تم اس ظلم کا جواز یہ کہہ کردیتے ہوکہ حکومت کرنا ہمارا حق ہے۔ تمہاری اپنے بچوں سے محبت مسلمان بچوں سے نفرت کی بنیاد پر استوار ہے۔ سابق امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ میڈ لین البرائٹ کے نزدیک پانچ لاکھ عراقی بچوں کی ہلاکت کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ تمہاری آزادیاں، دنیا خصوصاً مسلم دنیا کو زنجیر کرنے سے عبارت ہیں۔ تم مسلمانوں میں خصوصاً مسلم نوجوانوں میں ان کی تاریخ، تہذیب وثقافت، عقائد ونظریات اور روایات کے بارے میں ابہام پیدا کرنے، انہیں نسل پرستی، قوم پرستی، جمہوریت، سرمایہ داریت اور نجانے کون کون سے ازموں سے جوڑنے میں مصروف ہو اور کسی حدتک کامیاب بھی ہو۔ یہ کامیابی تمہیں بتدریج حاصل ہوئی ہے۔ یہی تدریجی نسخہ تم نے توہین رسالت کے حوالے سے بھی اختیار کر رکھا ہے اور خیال کرتے ہو رفتہ رفتہ مسلمانوں کی مزاحمت اس باب میں کمزور پڑتی جائے گی۔ یہ تمہاری بھول ہے۔ مسلمانوں کی آپؐ سے عشق کی دنیا اس قدر وسیع ہے کہ اس کی حساسیت اور گہرائی ناپنے کے پیمانے ایجاد ہی نہیں ہوسکتے۔ عشق ومحبت کی ان رفعتوں سے بلندتر مقام اس کائنات میں کہیں نہیں، ممکن ہی نہیں۔
ایمانویل! آج عیسائی دنیا نے ان یہودیوں کو دوست بنایا ہوا ہے جنہوں نے سیدنا مسیحؑ، ان کی والدہ بی بی مریم ؑ پر بہتان تراشے، جن کی سیہ کاریوں اور فتنہ سامانیوں کی بنا پر دوست بنانا تو درکنار ان کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں ہونا چاہیے تھا، لیکن تم سے اپنے نبی کی عزت وحرمت، عقیدت و غیرت سب رخصت ہوچکی اس حد تک کہ اب یہ تمہارے موضوعات ہی نہیں رہے۔ جس کلام مقدس نے بی بی مریم ؑ کی پاک دامنی کی گواہی دی، یہودیوں کی طرف سے ان پر لگائے جانے والے الزامات اور بہتانوں کا دفاع کیا، ان کو صدیقہ کے لقب سے نوازا، سیدنا عیسی ؑ کی پیدائش کی مکمل تفصیلات بیان کرکے دنیائے عیسائیت پر احسان عظیم کیا، آج تم اسی قرآن کی بے حرمتی کررہے ہو اسے نذرآتش کررہے ہو۔ تم اس گھنائونے پن اور شرمناک ضلالت کا مظاہرہ کیوں کررہے ہو؟ اس لیے کہ پرانی جہالتوں کے جو نئے ایڈیشن تم اہل مغرب نے نکالے ہیں قرآن انہیں چیلنج ہی نہیں کرتا ان کی تدفین کا بندوبست کرتا چلا جاتا ہے۔ کتنی ہی کتابیں آئیں اور بھلادی گئیں، کتنے ہی نظریات اور نظام رائج ہوئے اور خاک ہوگئے لیکن قرآن اس سے مستثنیٰ ہے۔ قرآن کی آیات دائم دلوں میں نور بوتی رہیں گی۔ ہر عہد میں کروڑوں حفاظ کے سینے اس سے منور رہے ہیں تم کس کس سینے سے قرآن نکالو گے۔ قرآن اور رسالت مآبؐ کی شخصیت تاریخ انسانی کے بلند افق پر جس طرح روشن ہیں، ان کی آب وتاب کے سامنے ٹھیرا جاسکتا ہے اور نہ ان سے گریز ممکن ہے۔ ایک ایسی تصوراتی دنیا جس میں قرآن نہ ہو،رسالت مآبؐ کی تکریم نہ ہو، صرف گہری شب سیاہ ہو، ممکن نہیں۔ ایما نویل تم جیسے ہیچ اور حقیر لوگ توہین رسالت کے جس راستے پر چل پڑے ہو اس کے ہر ہر قدم پرکوئی نہ کوئی مسلمان تمہیں مارنے اور کچلنے کے لیے موجود ہے۔ آئو۔۔۔