فرانسیسی ہٹ دھرمی‘عالم اسلام کی بے حسی

334

انسانیت کے خلاف جرائم کی سیاہ ترین تاریخ رکھنے والے فرانس نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک بار پھر اعلانِ جنگ کررکھا ہے۔ ریاستی سرپرستی میں جاری گستاخانہ خاکوں کا معاملہ عالم اسلام کے لیے کوئی معمولی بات نہیں۔ اس مکروہ فعل سے ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں کے جذبات مجروح ہو رہے ہیں، لیکن فرانس کی متعصب حکومت اس شرانگیزی سے باز آنے کے بجائے اس نفرت اور دشمنی کی اس آگ کو مسلسل ایندھن فراہم کررہی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ فرانس میں ایک اور چاقو حملہ کیا گیا ہے۔ نیس شہر میں ہونے والے اس حملے میں 3 افراد مارے گئے۔ یہ حملہ تیونسی شہری ابراہیم العیساوی نے کیا۔ فرانسیسی حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ اس خوں ریزی کو روکنے کے لیے دانش مندی کا مظاہرہ کرتی ، لیکن نیس کے میئر نے حملے کو دہشت گردی اور اسلاموفاشزم قرار دے دیا۔ فرانسیسی صدر اور عہدے داروں کی یہی زہریلی زبان ہے، جو مسلسل اشتعال بڑھا رہی ہے، تاہم مسلمانوں کو فرانسیسی حکومت کے ان بیانات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عربی کے ایک شعر کا مفہوم ہے کہ ’’کسی ناقص شخص سے تجھے میری برائی پہنچے، تو سمجھ جانا کہ میں کامل ہوں‘‘۔ فرانسیسی حکومت کے یہ بیانات بھی اسی شعر کے مصداق ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ فرانس نے اپنے استعماری دور میں افریقا میں انسانوں کا کس طرح استیصال کیا اور آج تک کررہا ہے۔ فرانس نے افریقا کے 20 سے زائد ممالک پر 450 سال تک قبضہ کیے رکھا۔ ان ممالک کے قدرتی وسائل لوٹنے اور مقامی باشندوں کو غلام بنا کر دنیا بھر میں فروخت کرنے کے ساتھ جو قتل عام کیے گئے، وہ ناقابل بیان ہیں۔ صرف روانڈا میں 1994ء کے دوران 8 لاکھ افراد کو قتل کیا گیا۔ یہ غلیظ تاریخ رکھنے والے کسی ملک کو کوئی حق نہیں کہ وہ فاشزم کو اسلام اور دہشت گردی کو مسلمانوں سے منسوب کرے۔ ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتر محمد نے بھی فرانس کو اس کا حقیقی چہرہ دکھاتے ہوئے کہا ہے ماضی میں فرانسیسیوں نے لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ یوں مسلمانوں کو غصہ کرنے اور لاکھوں فرانسیسیوں کو قتل کرکے بدلہ لینے کا حق ہے، لیکن مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا اور کسی کو ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ فرانس نے آزادیٔ اظہار اور جمہوری حقوق کے تحفظ کے نام پر سرکاری سرپرستی میں توہین اسلام کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے، وہ ایک جنگی اقدام ہے۔ تاہم افسوس کامقام ہے کہ اسلامی دنیا اور مسلمان ممالک اس کے خلاف زبانی جمع خرچ پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔ مسلمان اپنی حکومتوں سے سوال کررہے ہیں کہ کیا کوئی اقدام اور وہ بھی ایسا جو جنگی ہو، اس کے جواب میں بیان داغ دینا، خط لکھ دینا اور چند ٹیلی فون گھما دینا کافی ہے۔ اب تک کسی اسلامی ملک نے فرانس سے اپنا سفیر بلایا اور نہ ہی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اس معاملے میں مسلمان ممالک کی غیرسنجیدگی اور غفلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فرانسیسی حکومت نے کسی کے بیان کو سنجیدہ ہی نہیں لیا۔ صرف ترکی کے صدر اردوان کے اپنے فرانسیسی ہم منصب عمانویل ماکروں کو ذہنی قرار دینے پر انقرہ میں تعینات سفیر کو واپس بلانے کے ساتھ فرانسیسی وزارت خارجہ نے مذمتی بیان جاری کیا۔ حکومتوں کے برخلاف مسلمانوں نے اپنے طور پر فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا اور بڑے پیمانے پر اس حوالے سے مہم چلائی۔ فرانسیسی حکومت نے خود کو ’’لاتوں کا بھوت‘‘ ثابت کرتے ہوئے مسلمانوں کے اس اقدام سے ناصرف خطرہ محسوس کیا، بلکہ اسلامی ممالک کی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ یہ مہم چلانے کی اجازت نہ دیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلامی ممالک اور ان کی حکومتیں جب تک فرانس کے خلاف کوئی راست اقدام نہیں کریں گی، اس کی جانب سے یہ نفرت، اشتعال اور دشمنی کا سلسلہ نہیں رکے گا۔ مسلمانوں کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جان، اولاد اور مال سے زیادہ عزیز ہیں، لیکن ان کے ٹیکسوں پر پلنے اور چلنے والی ریاستیں مسلمانوں کی سب سے محبوب شخصیت کے ناموس کا تحفظ کرنے کو تیار نہیں۔ اس کی وجہ عالمی برادری کے سامنے خود کو امن پسند، روادار اور بقائے باہمی کے جذبے سے سرشار دکھانا ہے، لیکن یہ سب ڈھکوسلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب اسلامی ممالک کے تمام تر خوش نما، مصالحانہ اور امن پسندانہ بیانات کو خاطر میں لانے کے بجائے اپنے جامے سے مسلسل باہر آ رہا ہے۔ مغرب ننگ انسانیت تھا، ہے اور اپنی روش سے بتا رہا ہے کہ ایسا ہی رہے گا۔ اپنے مسلمات اور اصولوں پر سمجھوتا کرتے ہوئے اسلامی ممالک کی حکومتوں کی جانب سے گھٹیا مغربی اقوام کو راضی کرنے کی کوشش کرنا انتہائی افسوس ناک ہے۔ یہ طرزِ عمل اربوں مسلمانوں کے احساسات کا انکار اور ان کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ اس لیے اسلامی ممالک کو فرانس کی گھناؤنی روش کے خلاف بیان بازی چھوڑ کر اقدامات پر توجہ دینی ہوگی۔