گندم کی امدادی قیمت اور زمینداروں کی لوٹ مار

189

گندم کی پیداوار، درآمد، امدادی قیمت اور اسی کے ساتھ ساتھ آٹے کی قلت اور آٹے کی قیمتوں کا بلند ہونا جیسے موضوعات آج کل پاکستان میں خبروں کی زینت بن رہے ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان عوام کو ان خبروں سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ آٹا 60 اور 65 روپے کلو ہوگیا ہے۔ نان کی قیمت 12 اور 15 روپے ہوگئی ہے۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ یہ حکومت کی نااہلی اور بدانتظامی ہے۔ حکومت جواب دیتی ہے کہ یہ سابقہ حکمرانوں کا قصور ہے، عوام دیکھ رہے ہیں کہ مہنگائی پر کابینہ کی لمبی لمبی میٹنگیں ہورہی ہیں۔ وزرا بیورو کریٹس کو موردِ الزام ٹھیرا رہے ہیں۔ بیورو کریٹس کہتے ہیں کہ گندم مافیا اور شوگر مافیا بحران کھڑا کررہی ہیں اور عوام اچھے دنوں کے انتظار میں ہیں۔
پاکستان گندم کی پیداوار میں دنیا کے دس بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں 21 ملین ایکڑ رقبے پر گندم کی کاشت کی جاتی ہے اور تقریباً 80 فی صد کاشت کار اسی فصل کی کاشت کرتے ہیں۔ پچھلے سال گندم کی کاشت کا ہدف 25 ملین میٹرک ٹن تھا مگر بے موسم بارش، ٹڈی دل کے حملے اور خراب موسم کی وجہ سے تقریباً ساڑھے 24 ملین میٹرک ٹن گندم پیدا ہوئی ہے جس کے بارے میں متعلقہ اداروں نے حکومت وقت کو پہلے ہی بتادیا تھا مگر حکومت نے بروقت اقدامات نہ کیے جس سے آٹے کا بحران پیدا ہوا اور اب مختلف ممالک سے وزارت قومی تحفظ خوراک و تحقیق کے زیر نگرانی گندم درآمد کی جارہی ہے اور جنوری 2021ء تک 209ملین میٹرک ٹن درآمد کرلی جائے گی۔
کاشت کاروں کو اپنی زمین پر گندم کی کاشت پر راغب کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے گندم خریدنے کی ایک قیمت مقرر کی جاتی ہے جسے امدادی قیمت (Support Price) کہا جاتا ہے۔ گویا یہ حکومت کی طرف سے کاشت کاروں کے لیے اعلان ہوتا ہے کہ آپ کی فصل اس متعینہ قیمت پر حکومت خریدے گی اور فصل ضائع ہونے سے بچ جائے گی۔ ماہرین معیشت کا اس پر اعتراض یہ ہے کہ اس طرح حکومت کی ان سے گندم خریدنے سے حکومت پر بھاری مالی بوجھ پڑتا ہے اور اس خریداری کے لیے پاکستانی حکومت جس کے وسائل پہلے ہی محدود ہیں، بینکوں سے اونچی شرح سود پر قرضہ لینا پڑتا ہے اور مالیاتی خسارہ بڑھتا جاتا ہے اور وسائل کا بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی میں لگ جاتا ہے اور ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈ بہت کم رہ جاتے ہیں۔ چناں چہ اس کا حل یہ ہے کہ حکومت کاشت کاروں کے لیے پیداواری لاگت میں کمی کرکے کھاد، بیج، کیڑے مار دوائیں اور پانی سستے نرخ پر دیں تاکہ ان کا منافع برقرار رہے۔
امدادی قیمت کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ جب حکومت مہنگے داموں گندم خریدے گی تو فلور ملز کو انہی داموں پر فراہم کرے گی ۔ نتیجہ یہ کہ آٹا مہنگا ہوگا اور اس طرح صارفین پر بوجھ پڑے گا، پھر یہ کہ امدادی قیمت کے حوالے سے نام تو کاشت کاروں کا لیا جاتا ہے لیکن اس کا اصل فائدہ بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں کو ہوتا ہے، وہ محکمہ خوراک اور دوسرے سرکاری اداروں سے ملی بھگت کرکے اپنی گندم بھاری قیمت پر بیچ کر منافع کما لیتے ہیں۔ چھوٹے، غریب اور بے اثر کاشت کاروں اور کسانوں کی محکمہ خوراک کے اعلیٰ افسران تک پہنچ نہیں ہوجاتی اور وہ اپنے گندم اونے پونے داموں فروخت کرکے گزارا کررہے ہوتے ہیں۔
ہر سال یہی بااثر زمیندار اور جاگیردار جو سیاست دان ہونے کے ناتے ایم این اے، ایم پی اے یا وزیر اور مشیر کی حیثیت میں حکومت وقت پر دبائو ڈالتے ہیں اور گندم کی ایک اونچی امدادی قیمت حکومت سے منظور کرالیتے ہیں اور اس طرح اصل میں گندم اور آٹے کے شہری صارفین کی جیبوں پر ڈاکا ڈالتے ہیں۔ پچھلے سال شروع میں امدادی قیمت 1365 فی چالیس کلو گرام طے ہوئی بعد میں اسی عناصر کی ملی بھگت اور دبائو سے اسے 1400 روپے کردیا گیا۔ اس سال بھی یہ بااثر لوگ وہی چالیں چل رہے ہیں وہی ہتھکنڈے آزما رہے ہیں۔ شروع میں وزارت قومی تحفظ خوراک، تحقیق نے گندم کی پیداواری لاگت کا تخمینہ 1587 روپے فی 40 کلو گرام لگایا اور امدادی قیمت 1750 روپے کی سفارش کی جب یہ معاملہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے پاس پہنچا تو انہوں نے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کر 1600 روپے فی 40 کلو گرام کا فیصلہ کیا اس پر ردعمل آنا شروع ہوگیا اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے کہا کہ یہ کسانوں کے ساتھ ایک مذاق ہے کم اور کم از کم 2000 روپے فی من مقرر کیا جائے۔
حکومت سندھ جس کی فیصلہ سازی میں زیادہ تر دیہی علاقوں کے جاگیردار اور وڈیرے شامل ہیں ان کی کابینہ نے 2000 روپے امدادی قیمت مقرر کردی جب کہ اس صوبے میں گندم کی خریداری میں کرپشن بہت ہوتی ہے اور دوسرے گندم کا ذخیرہ کرنے کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے۔ پچھلے دنوں فلور ملز مالکان اور ٹریڈز نے سندھ حکومت پر یہ الزام لگایا کہ حالیہ بارشوں میں کھلے آسمان تلے اربوں روپے کی گندم خراب ہورہی ہے۔ اسی طرح نیب نے سندھ کے فوڈ مراکز پر چھاپا مارا اور یہ پتا چلا کہ 60 ہزار بوریاں غائب ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گندم کی خریداری کے نام پر کس طرح عوام کا پیسہ خورد برد کیا جاتا ہے اور اپنے چاہنے والے زمینداروں اور جاگیرداروں کو نوازا جاتا ہے۔ حکومت کا امتحان یہ ہے کہ ان لٹیروں اور مفاد پرستوں کا کب خاتمہ کیا جاتا ہے اور عوام کی زندگی آسان ہوتی ہے۔