توہین رسالت روکنے کیلیے معاشی و سیاسی تعلقات ختم اور مزاحمت کرنا ہوگی

125

 

کر اچی ( رپورٹ :قاضی جاوید (امیر تنظیم ِاسلامی شجاع الدین شیخ نے کہا ہے کہ فرانس سمیت پورا “عالم کفر “اسلام سے خوفزدہ ہے اور ان کو اپناکھوکھلا نظام زمین پرنظر آرہا ہے ۔آپ کا یہ سوال ٹھیک ہے “مغربی دنیا نے توہین رسالت کو ایک کھیل بنا رکھا ہیـ” یہ بات سمجھنے کے لیے کہ ” رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت مسلمانوں کے لیے کیا ہے اس سلسلے میں عرض ہے کہ ” رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے تمام مسلمان اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیںاور اس کا حکم اللہ نے دیا ہے “سورہ احزاب کی آیت نمبر 6میں اللہ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ “نبی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اہلِ ایمان کے لیے ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں” اس کا مطلب یہ ہے کہ “ایمان کی بنیاد اللہ کے رسول کی محبت ہے اور اس بنیاد پر اسلام کی پو ری عمارت کھڑی ہے۔ ہر اُس بات کی تصدیق کر نا کہ جس کی خبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے یہ ہمارے ایما ن کی بنیاد ہے
۔دنیا میں ہر لمحہ ہر آن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ خیر کہیں نہ کہیں ضرور ہوگا آپ ؐ کی سیرت سنائی اور بتائی جاتی رہے گی پھر بھی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عنوان پْرانا نہیں ہوگا یہی معجزہ ہے اور مسلمان یہی کر رہے ہیں۔ فرانس کے صدر کے بیان کے خلاف عالم اسلام کو اُٹھنا ہو گا تاکہ وہ ناموسِ رسالت کا تحفظ کر سکیں اور پوری دنیا کو بتا دیں کہ مسلمانوں کے لیے” ناموسِ رسالت” کی کیا اہمیت ہے۔ امیر تنظیم ِاسلامی شجاع الدین شیخ جسارت سے خصوصی گفتگو کر رہے تھے ۔ انہوںنے کہا کہ پوری تاریخ اسلام اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اسلام کے خلاف بولنے والوں کے خلاف ہمیشہ مسلمان عوام نے جدوِجُہد شروع کی اور اس کے بعد حکمران عوام کے پیچھے آئے ہیں ۔ ختمِ نبوت کے تحفظ کے بارے میں ہمیشہ مسلمان عوام نے جدوجہد کا آغاز کیا ہے اور اب بھی ایسا ہی ہو نے والاہے ۔فرانس کے صدر نے پوری دنیا کے پونے 2 ارب مسلمانوں کی غیرتِ ایمانی کو للکارا ہے اور آج پوری دنیا کی غیر مسلم حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہو ئی ہیں اس سلسلے میں یہ بھی بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ فرانس کے صدر نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر ڈکی بھی خلاف ورزی کی ہے جس میں صاف طور پر لکھا ہوا ہے “کہ دنیا کے کسی ملک یاگروپ کو اس بات کی اجازت نہیں ہے وہ دوسرے مذہب یا کسی بھی نبی یا رسول کی توہین کر ے “دنیا بھر کے اسلامی ممالک اور پاکستان کو فوری طور پر فرانس کے سفیر کو ملک بدر کر نا چاہیے۔ اس وقت پوری دنیا کے مسلمان اٹُھ کھڑے ہو ں اور پاکستان کی حکومت کو فرانس کی مصنوعات کا مکمل طور پر پر بائیکا ٹ کر نا ہو گا۔اسلامی ممالک فور ی طور پر ” آئی او سی “کا اجلا س بلا کرفرانس کے لیے فضائی حدود کو بند کیا جائے ۔ ان کو پتا چلنا چاہیے کہ اقوام ِمتحدہ کا اجلاس بلاکر فرانس کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں تاکہ کو ئی آئندہ ختم ِنبوت ؐ کی توہین اور توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کی جسارت نہ کر ے ۔فرانس کے اقدامات سے دنیا بھر میں مسلمانوں کے دل دکھے ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان حکمران ایسے اقدامات کریں جس کی وجہ سے مجبور ہو کر فرانس کے صدر دنیا بھر کے مسلمانوں سے معافی مانگنے پر مجبور ہو جائیں۔ غیرت دینی اور ایمانی کا تقاضا ہے کھل کر تما م اسلامی ممالک فرانس کے خلاف کارروائی کر تے ہو ئے اس کی دو ٹوک الفاظ میں مذمت کریں۔ ان سے سفارتی تعلقات کا خاتمہ کیا جائے ان سفیروں واپس بھیجا جائے اور اپنے سفیر کو واپس بلایا جائے۔کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر عمران خان نے کہا ہے کہ توہین آمیز خاکوں کی بنیا دی وجہ یہ ہے کہ عالم کفر کومسلمانوں اور خاص طور پر رسول اللہ کی تعلیمات کا خوف ہے کہ اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامات پر مسلمانوں نے عمل شروع کر دیا تو دنیاوی خداؤں کواپنی خدائی کا برقرار رکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا۔ رسولِ کائنات، فخر موجودات محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو خالق ارض و سما رب ا علیٰ نے نسلِ انسانی کے لیے نمونہء کامل اور اسوئہ حسنہ بنایاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو فطری طریقہ قرار دیا ہے۔ محسن انسانیت صلوات اللہ علیہ وسلام کے معمولات زندگی ہی قیامت تک کے لیے شعار و معیار ہیں، یہی وجہ ہے کہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر گوشہ تابناک اور ہر پہلو روشن ہے یومِ ولادت سے لے کر روزِ رحلت تک کے ہرلمحہ کو قدرت نے لوگوںکے لیے محفوظ کرادیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متوالوں نے محفوظ رکھاہے اور سند کے ساتھ تحقیقی طور پر ہم تک پہنچایا ہے، لہٰذا سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جامعیت و اکملیت ہر قسم کے شک و شبہ سے محفوظ ہے دنیائے انسانیت میں کسی بھی عظیم المرتب ہستی کے حالات زندگی، معمولات زندگی، انداز و اطوار، مزاج و رجحان، حرکات و سکنات، نشست و برخاست اور عادات وخیالات اتنے کامل ومدلل طریقے پر محفوظ نہیں ہیں جس طرح کہ ایک ایک جزئیہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تحریری شکل میں دنیا کے سامنے ہے یہاں تک کہ آپ سے متعلق افراد اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اشیاء کی تفاصیل بھی سند کے ساتھ سیرت و تاریخ میں ہر خاص و عام کو مل جائیں گی۔ انہوںنے کہا کہ سائنس اور اسلام کوملانے و الے یہ بھول جاتے ہیں کہ سائنس نے انسان کو روح کی تسکین اور سکون سے دور کر نے کی کوشش کی ہے اور انسان جانور بن کر رہ گیا ہے۔انسان دو حصوں میں تقسیم ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ جسم کی ضروریات کو پورا کر نے کے ساتھ روح کی بالیدگی کی پر ورش کا اہتمام بھی کیا جا ئے ۔انہوں نے کہا کہ ” سید المرسلین خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم”کی عظمت کے لیے عالم ِاسلام کو متحد ہو ناہو گا ۔عالم اسلام کے حکمران اگر ایک ہلکی سی دھمکی بھی دیں تو یہ سارے دم دباکر بھاگ جائیں گے۔ دعوۃسینٹر کراچی (انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ) کے سربر اہ ڈاکٹر عزیز الرحمن نے جسارت سے گفتگو کر تے ہو ئے کہا کہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درخشاں پہلوکے بارے میں ارشاد رب العالمین ہے کہ ! لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ… الخ ’’ البتہ تحقیق رسول کریم کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ ‘‘( الاحزاب : 21 )مذکورہ فرمان ربانی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سید المرسلین خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہی ہے جو تمام نوع انسان کے لیے ایک مکمل لائحہ عمل اور ضابطہ حیات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ فرد کامل ہیں جن میں اللہ رب العزت نے وہ تمام اوصاف جاگزیں کیے ہیں جو انسانی زندگی کے لیے مکمل لائحہ عمل بن سکتے ہیں۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم میں اپنے رفعت کردار ، فاضلانہ وشیریں اخلاق اور کریمانہ عادات کے سبب سے ممتاز تھے۔ مزید یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ بامروت ، سب سے زیادہ خوش اخلاق ،معزز ہمسائے ، دور اندیش ، راست گو ، نرم پہلو ، پاک نفس ، خیر اندیش ،کریم ، نیک ، سب سے بڑھ کر پابند عہد اور امانتدار تھے۔ حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لقب ہی امین رکھ دیا تھا۔اس لیے کہ اس دنیائے فانی میں ایک پسندیدہ کامل زندگی گزارنے کے لیے اللہ رب العزت نے اسلام کو نظامِ حیات اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو نمونہء حیات بنایا ہے وہی طریقہ اسلامی طریقہ ہوگا جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً، فعلاً منقول ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ سنت کہلاتا ہے اور آپ نے فرمایا ہے من رغب عن سنتی فلیس منی جس نے میرے طریقے سے اعراض کیاوہ مجھ سے نہیں ہے۔اور یہی سب کچھ ہم میں بہت کم ہے ۔ یہ جس پر عمل کی ضرورت ہے ۔اس کے علاوہ یہ کہنا کہ بائیکاٹ سے کچھ نہیں ہوتایہ ٹھیک نہیں ہے ۔فرانس کے خلاف بائیکاٹ ضرور ہو نا چاہیے ۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کو آپس میں اتحاد بھی کر نے کی ضرورت ہے اور اس سے ہی کامیابی میں اضافہ ہو گا۔پروفیسر ڈاکٹر زاہد علی زاہدی نے جسارت سے گفتگو میں کہا کہ عبادات وطاعات سے متعلق آپ کی سیرت طیبہ اور عادات شریفہ پر برابر لکھا اور بیان کیا جاتا رہتا ہے۔ دنیا میں ہر لمحہ ہر آن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ خیر کہیں نہ کہیں ضرور ہوگا آپ کی سیرت سنائی اور بتائی جاتی رہے گی پھر بھی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عنوان پْرانا نہیں ہوگا یہی معجزہ ہے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اور یہی تفسیر ہے ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ کی۔صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی دنیا وآخرت میں کامیابی وسرفرازی کا عنوان اتباع سنت ہے یہی اتباع ہر دور ہر زمانے میں سربلندی اور خوش نصیبی کی کنجی ہے۔ اگر کسی کو عہدِ رسالت نہ مل سکا تو پھر ان کے لیے عہدِ صحابہ معیارِ عمل ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی پاکیزہ جماعت سیرۃ النبی کا عملی پیکر ہے ہر طرح سے پرکھنے جانچنے کے بعدان کو نسلِ انسانی کے ہر طبقہ کے واسطے ایمان وعمل کا معیار بنایاگیاہے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تربیت فرمائی ہے اور اللہ رب العالمین نے ان کے عمل و کردار، اخلاق و اطوار، ایمان و اسلام اور توحید وعقیدہ، صلاح و تقویٰ کو بار بار پرکھا پھر اپنی رضا وپسندیدگی سے ان کو سرفراز فرمایا، کہیں فرمایا ’’اولئک الذین امتحن اللّٰہ قلوبہم للتقویٰ‘‘کہ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کے تقویٰ کو اللہ نے جانچا ہے، کہیں فرمایا ’’آمنوا کما آمن الناس‘‘ کہ اے لوگو ایسے ایمان لاؤ جیساکہ محمد کے صحابہ ایمان لائے ہیں تو کہیں فرمایا اولئک ہم الراشدون یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ یہ سب اس لیے کہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس جمیل تھے ان کی عبادات میں ہی نہیں بلکہ چال ڈھال میں بھی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور جھلکتا تھا یہی سبب ہے کہ خود رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم اہتدیتم‘‘ (ترمذی) میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جن سے بھی اقتدا ومحبت کا تعلق جمالو گے ہدایت پاجاؤگے۔لیکن آج ہم یہ سب کچھ کر نے سے دور ہیں اور اس کے بر عکس آج ہم نے غیروں کے طریقہ کا ر پر عمل کر نے کواپنا وطیرہ بنا رکھا ہے اور اسی لیے دنیا میں آج توہین کا سلسلہ بڑھ رہا ہے۔عالم ِ اسلام کو صرف عمل کی ضرورت ہے اور دنیابھر کے مسلمان اگر مل کر توہین کرنے والوں کے خلاف کام کریں تودنیا میں کسی کو اس بات کی جرات نہیں ہو گی کہ وہ توہین آمیز خاکے یا اسی طرح کی دوسری کو ئی حرکت کر نے کی جرات کر ے گا۔