وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت و تشہیر کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اس اہم مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھانے، مسلمان ملکوں کے رہنمائوں کو خطوط لکھنے کے ساتھ ہی وفاقی وزیر مذہبی امور کی تجویز پر ملک بھر میں 12 ربیع الاول اور ربیع الاول ہفتہ ’’عشق رسول‘‘ منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے دور رس نتائج نکل سکتے ہیں اور ان ذرائع سے ہم مغربی دنیا کے ممالک کو نہ صرف اپنا احتجاج باوقار طریقے سے ریکارڈ کراسکتے ہیں بلکہ اسلام کے پیغام امن و سلامتی اور بین المذاہب رواداری کو فروغ دے سکتے ہیں اور اسلام سے متعلق مغربی دنیا کے شک و شبہات کو بھی دور کرنے میں یہ اقدامات معاون ثابت ہوسکتے ہیں اور اسلام و مسلمانوں کا مقدمہ اچھے پیرائے میں پیش کرسکتے ہیں جو موجودہ دور میں وقت کی اہم ضرورت ہے اور یہی طریقہ کار و وتیرہ ہمارے علما، دانشور، سیرت نگار و محققین کا رہا ہے کہ انہوں نے مغرب کے ایسے فتنہ پردازوں و متعصبین اسلام کے زہریلے پروپیگنڈے کا جواب ہمیشہ دلائل و مضبوط کردار سے دیا ہے۔ اسلام ایک فطری و عالمگیر دین ہے جو انسانی تہذیب و تمدن کے درخشاں پہلو رکھتا ہے اور مضبوط دلائل و نظائر کی سنہری تاریخ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے اثرات تعصب سے پاک ہر انسان کو متاثر کرتے ہیں جس کی گواہی تاریخ کے علاوہ آج بھی مغرب میں اسلام کے تیزی سے پھیلنے والی خبروں سے ہوتی ہے یہی وہ خوف ہے جو اسلام دشمنی، متعصب و انسانی شرف و تہذیب سے عاری چند عناصر میں موجود ہے جس کا اظہار فرانس نے کیا ہے یہ تاریخ انسانی میں ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے ہر دور میں اسلام سے تعصب رکھنے والے موجود رہے ہیں۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل تا امروز
چراغ مصطفیؐ سے شرار بولہبی
موجودہ دور میں فرانس کے صدر نے بھی اسی خوف کا اظہار گستاخانہ خاکوں کی حمایت کرکے کیا ہے اور اس کے جواز کے لیے آزادی ضمیر و افکار کا سہارا لیا ہے۔ جب کہ 1948ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظور کیے جانے والے انسانی حقوق کے چارٹر جسے اقوام عالم نے متفقہ طور پر منظور کیا جس میں پاکستان بھی شامل ہے، اس چارٹر کی دفعہ 18 میں مذہب کے حوالے سے مذہب کے حق کو انسان کا بنیادی حق اور ہر مذہب کے تقدس کو محترم قرار دیا گیا ہے۔ اس کی رُو سے فرانس و دیگر قومی ممالک میں اسلام اور پیغمبرؐ پر توہین آمیز مواد، کارٹون، خاکے وغیرہ خود ان ممالک کے منظور کردہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور آزادی افکار و اظہار کی نفی ہیں جس پر اقوام متحدہ کو ان ممالک کے خلاف نوٹس لینا چاہیے اور اس سلسلے کو فوری بند کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ جب کہ اسلام پہلے ہی آج سے چودہ سو سال قبل آزادی مذہب و ضمیر پر نہیں انسانی عالمی حقوق کا چارٹر خطبہ حجتہ الوداع کے تاریخی موقع پر اپنے پیغمبر خاتم النبین سیدنا محمدؐ کے ذریعے دنیائے انسانیت کو پیش کرچکا ہے اور قرآن پاک میں بھی واضح کردیا گیا کہ ’’دین میں جبر نہیں‘‘۔ اسلام ہمیں دیگر مذاہب کے پیغمبران و مقدس مذہبی ہستیوں کے تقدس و احترام کی تعلیم دیتا ہے اور ہر مذہب و مخالفین سے مکالمہ و رواداری کی ہدایت کرتا ہے اور مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہے کہ بُرائی کو بھلائی سے روکو۔ چناں چہ اسلام کے ان سنہری اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں جذبات میں اسلامی تعلیمات و سیرت النبی کے درخشاں پہلوئوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ راقم الحروف نے توہین آمیز خاکوں کے مسئلے پر روزنامہ جنگ میں 20 فروری 2008ء اور روزنامہ جسارت میں 30 اگست 2018ء میں شائع ہونے والے دو الگ الگ مضامین اس مسئلے کے حوالے سے چند قابل عمل تجاویز پیش کی تھیں۔ چوں کہ حکومتی سطح پر آج بھی حکومت نے ضرورت محسوس کی ہے کہ اس مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھایا جائے اور اندرونی سطح پر ملک بھر میں ’’ہفتہ عشق رسول‘‘ کے انعقاد کے ذریعے سیرت خاتم النبیین کے مختلف پہلوئوں سے مغربی دنیا کو آگاہ کیا جائے۔ لہٰذا میں اپنی تجاویز کو ایک مرتبہ پھر پیش کررہا ہوں جو آج بھی قابل عمل ہیں اور توقع رکھتا ہوں کہ حکومت اپنے حالیہ فیصلے پر عمل درآمد کے لیے ان تجاویز کو عملی شکل دے گی اور اس مسئلے کو ٹیسٹ کیس سمجھ کر اپنا کردار ادا کرے گی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے او آئی سی و دیگر اسلامی ممالک جو او آئی سی کے رکن نہیں ہیں انہیں بھی شامل کرکے ہنگامی اجلاس سعودی علما و آئمہ حرمین سمیت تمام اسلامی ممالک کے علما، دانشور، سیرت نگار، ماہر قانون، میڈیا و محققین اسلام و جدید علوم کے ماہرین کا بلائے جو سرزمین حرم مکہ مکرمہ میں ہو اور ان اکابرین علما و اساطیر کی رہنمائی میں عالمی سطح کی ’’تحفظ اسلام و ناموس رسالت‘‘ کمیٹی تشکیل دی جائے۔ یہ کمیٹی قانونی طور پر ایسے تمام کیس کو عالمی عدالت میں لے جائے اور اقوام متحدہ و دیگر عالمی انسانی حقوق کے اداروں کے ذریعے ایسا قانون منظور کرایا جائے جس کے تحت اسلام سمیت دیگر مذاہب کے مقدس انبیا کرام کی توہین کو ’’عالمی جرم‘‘ قرار دیا جائے۔ اس کے علاوہ علمی سطح پر دلائل کی روشنی میں مغرب کے اسلام پر الزامات و شبہات کے ازالے کے لیے جدید علوم کے ماہر انگریزی داں پر مبنی اہل علم کا بورڈ بنایا جائے جو مستقل طور پر اسلام کے اصولوں و انسانیت کے لیے اسلام کی خدمات کو اجاگر کرے تاکہ مغرب میں اسلام کے خلاف شبہات و تعصبات پیدا کرکے اسلام کی راہ روکنے کی مہم کو روکا جائے۔