جناب ابوعمرو سفیان بن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول ِ مقبولؐ سے گزارش کی کہ مجھے اسلام کے بارے میں کوئی ایسی کافی نصیحت فرما دیجیے کہ آپؐ کے بعد مجھے کسی اور سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ پر ایمان لاؤ پھر اس پر جم جاؤ۔ یہ حدیث مسلم میں ہے۔
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: اعتدال اور میانہ روی کے ساتھ دین کی راہ چلو اور اس پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہو۔ اور یہ سمجھ لو کہ کوئی شخص محض اپنے عمل کے سبب نجات نہیں پا سکتا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ کیا آپؐ بھی نہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں، میں بھی نہیں مگریہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل و رحمت کے سائے میں ڈھانپ لے۔ (مسلم)
ان دونوں حدیثوں کو ملا دیں تو ایک بہت ضروری اور بنیادی ہدایت حاصل ہوتی ہے۔ ایک تو ہمیں اپنے ایمان پر ثابت قدم رہنا ہے اور اپنی پوری زندگی کو ایک ایسے بندے کے طور پر گزارنا ہے جو اللہ کو اپنا حاکم اور معبود مانتا ہے۔ اگر ہماری زندگی کے کچھ حصے اس دعوے کی تصدیق نہیں کرتے کہ ہم اللہ کو اپنا حاکم اور معبود مانتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمارے ایمان میں اسی قدر سچائی کم ہے۔ یعنی اپنی زندگی کو اس کے ایک ایک لمحے اور اس کے ایک ایک مقصد کے ساتھ اللہ کے حکم اور مرضی کے تابع نہ رکھنا گویا اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ تعلق کو سچا نہ رکھنے کے برابر ہے۔ جس نے بھی اللہ کو مان لیا کہ وہ مجھ پر اور اس ساری کائنات پر حاکم ہے، تو اللہ کو اس طرح ماننے کے بعد یہ فطری طور پر لازم ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ پر جو ایمان اسے نصیب ہوا ہے، اس کی ساری زندگی یعنی اس کے سارے اعمال، اس کی تمام خواہشات ، اللہ کے حکم اور اس کی مرضی کے تابع ہوں۔ یعنی ایمان لاتے ہی مجھ پر جو پہلی ذمے داری عائد ہو جاتی ہے وہ یہ ہے کہ میرا عمل اللہ کے حکم کے تحت اور میری خواہش اللہ کی مرضی کے مطابق ہو۔ ان دو چیزوں کے بارے میں ہوشیار رہتے ہوئے، اللہ کے ساتھ وفادار رہتے ہوئے، جس نے بھی اپنی زندگی گزار لی، اس نے گویا ایمان لانے کا حق ادا کر دیا۔ اس نے گویا مسلمان ہونے کی سب سے بنیادی ذمے داری ادا کر دی۔ یہ بات بظاہر خیالی اور رومانوی سی لگتی ہے کہ آدمی اپنی خواہشات کو طبیعت سے کھرچ دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ جدیدیت نے انسان اور اس کے احوال و مقاصد کے بارے میں جو تصورات بنائے ہیں، اُن کو اندھا دھند قبول کر لینے کے نتیجے میں آج یہ چیز بہت غیر مانوس لگنے لگی ہے کہ انسانوں سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ شخصیت میں تنوع کے تمام عناصر کو کسی ایک ہی نقطے میں سمیٹ کر دکھائیں۔ ہم چونکہ دین کے ساتھ اپنے تعلق کو کچھ رسمی صورتوں اور چند بے لچک سطحی تصورات تک محدود رکھنے کے عادی ہو چکے ہیں، اِس لیے دین کے ودیعت کردہ تصورِ انسان اور شعورِ مقاصد سے اتنے دور جا پڑے ہیں کہ خود ہمیں اپنے دین کے بنیادی ترین مطالبات بھی رومانوی یعنی، دوسرے لفظوں میں، ناقابلِ عمل محسوس ہوتے ہیں۔ چونکہ اِن مطالبات کی سند یعنی اِن کا متن اتنا قطعی اور دو ٹوک ہے کہ اُس کا انکار تو دور کی بات ہے، اُسے تاویل کے نام پر توڑا مروڑا بھی نہیں جا سکتا لہٰذا ہم نے دل میں ایک چور پال لیا ہے جو لفظوں میں نقب لگا کر انہیں معنی سے خالی کر دیتا ہے۔ ہم نے حقائق اور مقاصد کے ساتھ ہم آہنگی کا تقاضا کرنے والے احکام کو محض الفاظ کا مجموعہ اور دل فریب آوازوں کا سازینہ بنا رکھا ہے۔ احکام کے وہ معانی جن کی بنیاد پر وجود اور شعور کی تکمیل وتشکیل کا عمل چلتا ہے ، وہ اللہ اور ہمارے بیچ میں سے غائب ہو گئے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ دین ہمارے اندر کوئی بلندی، کوئی اٹھان نہیں پیدا کرتا اور بس ایک ٹمٹماتی ہوئی روشنی بن کر رہ گیا ہے جسے لاتعلقی کی دھند نے لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس صورتِ حال میں بہت ضروری ہو چکا ہے کہ دین کو اس کے حقائق ومقاصد کے ساتھ کسی کمی بیشی کے بغیر پیش کیا جائے اور اللہ کے ساتھ اس فطری اور معیاری تعلق کو بحال کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے جس کے بغیر ہم پر خود ہماری حقیقت کا انکشاف ہو سکتا ہے اور نہ ہی ہماری شخصیت میں سکڑنے کا عمل رک سکتا ہے۔ آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ آج کا آدمی تقریباً ایک حیوانی وجود بنتا جا رہا ہے جس کے لیے صرف جسم اور جسمانیت حقیقی ہے، باقی سب کہانیاں ہیں۔ رسول اللہؐ نے دین کو اس طرح نہیں پیش فرمایا کہ تمہاری ساری زندگی ، تمہاری ساری شخصیت اور تمہارے تمام حالات اس کا موضوع نہیں ہیں۔ رسول اللہؐ جو دین لے کر آئے تھے، اس دین کا اولین مطالبہ اور رسول اللہؐ کا اس دین کو ماننے اور عمل کرنے کا اسوہ یہ ہے کہ میرے تمام حالات، میرے سارے احوال اور میرے کل افعال اور اعمال اس دین کے تابع ہوں گے ورنہ میں ان کی تردید کرنے کا، ان سے چھٹکارا پانے کا، ان سے نجات پانے کا، ان پر توبہ کرنے کا پابند ہوں۔ یہ دین ہمارے کچھ اجزا سے مخاطب نہیں ہے۔ یہ دین کہتا ہے کہ اپنے آپ کو کل کا کل میرے سپرد کرو۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ایسا نہیں ہے کہ اس نے میرے صرف ہاتھ پاؤں بنائے ہوں، ذہن اور قلب نہ بنایا ہو۔ جس طرح اللہ نے مجھے پورے کا پورا بنایا ہے، میں پورے کا پورا اللہ کی مخلوق ہوں، اسی طرح میں پورے کا پورا اللہ کا بندہ ہوں۔ ہماری بہت بنیادی ذمے داری ہے کہ ہماری زندگی اور ہمارے دائرۂ اختیار میں آنے والا ماحول اللہ کے حکم سے متصادم نہ رہے۔
بندگی، سبب ِ وجود ہے، اس کے علاوہ ہمارے جینے مرنے کا کوئی سبب نہیں ہے، اس کے علاوہ ہمارے موجود ہونے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ ہم صرف ایک معنی رکھنے والے لفظ کی طرح ہیں اور ہمیں اس معنی کی پوری حفاظت کرنی ہے۔ ہماری ہر حیثیت جب تک اس بندگی سے تصدیق نہیں پائے گی ، وہ حیثیت عدمی، وجودی نہیں۔ میں لاکھ کہتا رہوں کہ میں اللہ سے سچا تعلق رکھتا ہوں، لیکن اگر اللہ کا تعلق تمام تعلقات کی لذتوں پر غالب لذت نہیں ہے، تو وہ کیا تعلق ہے؟ میں کہتا ہوں میرا بیٹے سے تعلق ہے، بالکل ٹھیک، کیونکہ بیٹے کی محبت میرے اعصاب میں ارتعاش رکھتی ہے۔ میں کہتا ہوں مجھے دولت سے تعلق ہے، میں اس میں بالکل سچا ہوںکیونکہ دولت کا آنا مجھے خوشی سے بے حال کرتا ہے اور جانا مجھے چارپائی پر پھینک دیتا ہے۔ لیکن اگر میں اپنے دل میں جھانک کردیکھوںکہ اس میں تعلق باللہ کا وہ حال موجود ہے جس کی تصدیق، احساسات و جذبات سے بھی ہوتی ہو؟ یعنی مجھے بارہا یہ محسوس ہوتا ہو کہ یا اللہ میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتا، یااللہ میری کوئی منزل ایسی نہیں ہے جو میرے دل کو کھینچتی ہو سوائے آپ کے ، یا اللہ کوئی راستہ ایسا نہیں ہے جس پر میں اپنے پورے دل اور جذبے کے ساتھ چلتا رہوں سوائے اس راستے کے جو آپ نے بنایا اور جس پر رسولؐ کی رہنمائی میں اپنے دوستوں کو چلوا کے دکھایا۔ تو جناب، اگر اللہ سے تعلق ہمارے احساسات وجذبات کا واحد موجب نہیں ہے، اگر اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت ہمیں نیکی اور فرمانبرداری پر نہیں اکساتی اور اس کی خشیت گناہ سے بھگانے کا سب سے مؤثر ذریعہ نہیں ہے، پھر اللہ سے تعلق محض خوش فہمی یا خود فریبی ہے۔