فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی کامیاب مہم

191

گزشتہ چند ہفتوں میں فرانس کے اندر مسلم دشمنی اور اسلاموفوبیا کے حوالے سے پے درپے ایسے واقعات ہوئے جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں میں تشویش اور غم و غصے کی ایک لہر دوڑ گئی۔ فرانس کا صدر ماکروں کوئی پہلا حکمران نہیں جو اسلام اور مسلمانوں سے عداوت رکھتا ہے بلکہ یہ فرانس کے سیکولرازم کی پرانی روایت ہے۔ ماکروں نے تو صرف نوآبادیاتی زہریلے ورثے پر پڑے ہوئے منافقت کے پردے کو سرکاتے ہوئے اس کے مکروہ چہرے کو پھر سے عیاں کیا ہے۔ اُس نے اقتدار سنبھالتے ہی فرانس میں سفید فام انتہاپسندوں کی انسانیت سوز کاروائیوں کے سو اہونے والی ہر انتہاپسندی کو مسلمانوں کے عقیدے، ثقافتی علامات مثلاً ڈاڑھی، برقع، حجاب، نماز اور حلال کھانا وغیرہ سے جوڑتے ہوئے ان علامات پر عائد پابندیوں کو مزید سخت کیا۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ چند ہفتے پہلے باقاعدہ اعلان کیا گیا کہ اسلام بحران کا شکار ہے اور ہم اپنے ملک میں یہاں کے اسلامی اداروں اور مساجد وغیرہ کو بیرونی اثرات سے آزاد کر ارہے ہیں۔ اس کے بعد رسوائے زمانہ اخبار شارلی ہیبڈو کی جانب سے ایک مرتبہ پھر توہین آمیز خاکوں کی اشاعت ہوئی۔ ساتھ ہی ایک فرنچ ٹیچر کی طرف سے توہین آمیز خاکے، کلاس کے اندرطالب علموں کو دکھائے گئے، جس کے ردعمل میں ٹیچر کا قتل ہوا اور بعد میں پولیس کے ہاتھوں ٹیچرکےقاتل کا ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد ماکروں حکومت نے پیرس کے ایک مصروف مضافاتی علاقے میں اس مسجد کو 6 ماہ تک بند کر نے کا حکم دیا، جہاں سے مبینہ طور پر ہلاک کیے جانے والے استاد سے متعلق وڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تھیں۔ اس دوران ایفل ٹاور کے قریب 2 سفید فام خواتین نے 2 مسلمان خواتین پر چاقوؤں کے وار کرکے زخمی کر دیا۔ ان واقعات کے تناظر میں فرانس میں ایک بار پھر شروع ہونے والی اسلاموفوبیا کی بدترین لہرسے اقلیتیں غیر محفوظ ہو گئیں۔
فرانسیسی صدر عمانویل ماکروں نے مذکورہ ٹیچر کے قتل کے واقعے کو مسلم دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ صاف ظاہر ہے کہ یہ حملہ اسلامی شدت پسندوں نے کیا ہے اور اس ٹیچر کو اس لیے قتل کیا گیا کہ وہ آزادی اظہار کا درس دے رہا تھا۔ کابینہ کے اجلاس میں ماکروں نے کہا کہ اسلامی شدت پسندوں کو چین سے سونے نہیں دیا جائے گا اور اعلان کیا کہ حکومت ایک نیا قانون لا رہی ہے جس کے ذریعے مقامی سطح پر مذہبی اور سماجی تنظیموں کے مالی معاملات کی بہتر نگرانی کی جائے گی، انتہا پسندی پھیلانے والے نجی مدارس کے خلاف کارروائی ہوگی اور فرانس میں پبلک سیکٹر میں کام کرنے والی خواتین پر حجاب پہننے کی پابندی کو اب نجی شعبے میں بھی لاگو کیا جائے گا۔ فرانسیسی صدر ماکروں کی جانب سے مسلمانوں پر الزامات لگانے کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ ترک صدر رجب طیب اِردوان نے فوری طور پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ فرانسیسی صدر عمانویل ماکروں کو اسلام اور مسلمانوں سے کیا مسئلہ ہوسکتا ہے؟ کوئی سربراہ مملکت اپنے ملک میں بسنے والی ایک مذہبی اقلیت کے لاکھوں شہریوں کے ساتھ ایسا رویہ رکھتا ہے؟ ایسے لوگوں کو سب سے پہلے اپنے دماغ کا معاینہ کروانا چاہیے۔
اسلامی ممالک کی عالمی تنظیم او آئی سی نے بھی فرانسیسی صدر کے بیانات کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ ترک صدر کے بیان کے بعد فرانس نے یہ کہتے ہوئے ترکی سے اپنا سفیر واپس بلالیا ہے کہ صدر اِردوان نے حد سے تجاوز کیا ہے اور اکھڑپن کا لہجہ استعما ل کیا ہے اور یہ طریقہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ فرانسیسی حکام کو اپنےاس ظلم و ستم پر کوئی شرم محسوس نہیں ہوئی جو وہ کئی دہائیوں سے اپنے مظلوم مسلمان شہریوں کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں۔ آزادی اظہار کے نام پر جو دہشت گردی وہ خود پھیلا رہے ہیں، وہ ان کے خیال میں جائز ہے لیکن ترک صدر کی طرف سے ان کے دہشت گردانہ اقدامات پر مذمتی بیان ناجائز ہے۔
ترک صدر نے اس کے جواب میں دوبارہ اپنے خطاب میں اپنے اور عرب ممالک کے عوام سے اپیل کی کہ فرانسیسی صدر کی جانب سے پیغمبر اسلام ﷺکے بارے میں توہین آمیز خاکوں کا دفاع کرنے کی وجہ سے وہ فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں چنانچہ کویت میں ایک بڑی تجارتی یونین کی جانب سے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس یونین میں کویت کی 70 سے زیادہ تنظیمیں شامل ہیں اور ان کا کویتی حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ اُردن، قطر اور کویت میں کچھ سپر مارکیٹس سے فرانسیسی مصنوعات کو ہٹا دیا گیا تھا۔ قطر یونیورسٹی نے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم میں شامل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے فرانس کی ثقافت پر منعقدہ ایک تقریب کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔ اِس وقت ترکی، ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، مراکش، فلسطینی علاقوں، الجزائر، تیونس سمیت مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں بائیکاٹ فرانس ہیش ٹیگ بہت مقبول ہو رہا ہے۔ عرب دنیا کی سب سے بڑی معیشت سعودی عرب میں فرانسیسی سپرمارکیٹ چین کارفور کے بائیکاٹ سے متعلق ہیش ٹیگ دوسرے نمبر پر ٹرینڈ کرتا رہا۔ دریں اثنا لیبیا، غزہ اور شمالی شام میں فرانس مخالف مظاہروں کا انعقاد بھی ہوا۔ اُردن میں حزبِ اختلاف کی ایک اسلامی جماعت نے عوام سے اپیل کی ہے کہ فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرے۔ پاکستان میں گزشتہ ہفتے سے فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا ٹرینڈ ٹاپ پر ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے فرانسیسی صدر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس کے حالیہ اقدامات کی مذمت کی اور سوشل میڈیا کی سب سے بڑی ویب سائٹ فیس بک کے سربراہ مارک زُکربرگ کو اسلاموفوبیا کے مواد پر پابندی عائد کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے یہ معاملہ عالمی فورم پر اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے اور تمام اسلامی ممالک کے سربرہان کو اس سلسلے میں خطوط لکھے ہیں اور ان سے گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر اتحاد و یکجہتی کی درخواست کی ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف متفقہ قرار داد بھی منظور کی گئی اور اپوزیشن رہنمائوں نے بھی ان خاکوں کی مذمت کی۔ ایران کے رہبر اعلیٰ خامنہ ای نے ماکروں کے بیان کو احمقانہ قرار دیتے ہوئے فرانسیسی عوام سے کہا کہ وہ اپنے صدر سے پوچھیں کہ وہ آزادی اظہار کے نام پر اللہ کے پیغمبرﷺ کی بےحرمتی کی حمایت کیوں کر رہے ہیں؟کیا آزادی اظہار کا مطلب مقدس شخصیات کی توہین کرنا ہوتا ہے؟
ٹریڈنگ اینڈ اکنامکس ویب سائٹ کے مطابق خلیجی ریاستوں میں فرانس سے زیادہ تر کھانے پینے کی اشیا درآمد کی جاتی ہیں۔ قطر فرانس سے 4 ارب 30 کروڑ ڈالرز کی مالیت کی درآمدات کرتا ہے۔ پچھلے برس تک فرانس کویت کو 58 کروڑ ڈالرز کی برآمدات کرتا رہا ہے جب کہ فرانس متحدہ عرب امارات کو 27 کروڑ یوروز (32 کروڑ ڈالرز) کی برآمدات کرتا ہے۔ فرانس کے دیگر عرب ممالک میں تجارتی شراکت داروں میں مصر بھی شامل ہے۔ الجزائر، تیونس اور مراکش تو فرانسیسی نوآبادیات رہی ہیں اس لیے وہاں کی اشرافیہ کو فرانس سے وہی تعلق ہے جو پاکستان کی اشرافیہ کا برطانیہ سے ہے۔ ان ممالک نے صدر ماکروں کی مذمت تو کی ہے لیکن بائیکاٹ کا اعلان صرف الجیریا نے کیا ہے۔ الجیریا فرانس سے 40 کروڑ یورو کی برآمدات کرتا ہے۔ پاکستان نے گزشتہ برس فرانس سے 44 کروڑ ڈالرز کی مصنوعات درآمد کی تھیں۔ ترکی فرانس سے ساڑھے 6 ارب ڈالرز کی مصنوعات کی درآمدات کرتا ہے۔ متعدد مسلم ممالک بشمول پاکستان، بنگلا دیش اور ترکی میں فرانسیسی ’’ٹوٹل پٹرول پمپ‘‘ موجود ہیں۔ سعودی عرب اور کئی خلیجی ممالک نے ٹوٹل پٹرول پمپ میں سرمایہ کاری بھی کی ہوئی ہے۔ فرانس دنیا کے معروف اسلحہ برآمد کنندگان میں سے ایک ہے، تھیلس نامی کمپنی سعودی عرب، متحدہ امارات، ترکی اور قطر کو اسلحہ، ایروناٹکس اور پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم فروخت کرتی ہے۔ مصر اورقطر نے ڈاسالٹ کمپنی سے رافیل جنگی طیارے آرڈر کیے ہوئے ہیں۔ فرانسیسی کمپنی رینالٹ نے ترکی کو رواں سال 49ہزار 131 گاڑیاں فروخت کیں۔ سائٹروئن اور پییووٹ برانڈز کی کمپنیوں کی فروخت بھی ترکی میں بڑھ رہی ہے۔
مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے پر امن احتجاج کرنا، اپنے مقصد اور ہدف کے حصول کا ایک موثر طریقہ ہے۔ فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ انسانی تاریخ میں پہلی بار نہیں ہوا اس طریقے کو دنیا بھر میں ایک زمانے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے قبل ڈنمارک میں جب توہین آمیز خاکے شائع ہوئے تھے تو اسلامی دنیا میں ڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی ہوا تھا۔ دیگر مشہور تاریخی اورکامیاب بائیکاٹس میں امریکی انقلاب کے وقت برطانیہ کی مصنوعات کا بائیکاٹ، گاندھی کی اپیل پر ہندوستان میں برطانوی مصنوعات کا بائیکاٹ، 1920ء میں امریکا میں ہنری فورڈ کے خلااف یہودیوں کا بائیکاٹ، 1930ء میں جرمنی میں یہودیوں کے بزنس کے خلاف بائیکاٹ، 1973ء میں عرب ممالک کی طرف سے مغرب کے خلاف خام تیل امبارگو اور کئی دیگر کامیاب بائیکاٹس شامل ہیں۔ جب کوئی بائیکاٹ کامیاب ہوتا ہوا دکھائی دینے لگتا ہے تو بڑی سے بڑی طاقت بھی اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ حالیہ بائیکاٹ کے دو، تین دن کے اندر ہی فرانس کو محسوس ہونے لگا کہ اس بائیکاٹ سے اسے معاشی طو رپر کوئی بڑا نقصان ہو سکتا ہے، اس لیے فرانس نے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔
فرانس کی وزات خارجہ کا کہنا ہے کہ فرانس کی مصنوعات کے بائیکاٹ کے بے بنیاد اعلانات کو شدت پسند اقلیت کی جانب سے ہوا دی جا رہی ہے۔ اس کے جواب میں ترک صدر نے کہا کہ یورپی رہنماؤں کو یورپ میں نفرت کا پھیلاؤ روکنے کے لیے فرانسیسی صدر کی پالیسیوں کو روکنا چاہیے اور انہیں سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل جس طرح یہودیوں کے خلاف مہم چلائی جا رہی تھی آج ویسی ہی مہم مسلمانوں کے خلاف چلائی جا رہی ہے۔
دنیا بھر کے مسلمانوں نے ترک صدر کے بروقت اور جرات مندانہ فیصلوں کو سراہتے ہوئے ان کی پرزور تائید کی اور بے شمار کمپنیوں کے مالکان نےاپنی حکومتوں کے فیصلوں کا انتظار کیے بغیر بائیکاٹ کی حمایت کرتے ہوئے فرانسیسی مصنوعات کو شورومز سے ہٹا دیا، تاہم حیرت انگیز طور پر پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں صدر ماکروں کے حمایتی اور معتقدین بھی مختلف انداز میں یورپ سے اپنی وفاداری نبھاتے نظر آئے، جو مغرب سے بہت مرعوب ہیں اور ان کے خیال میں مغرب کی علانیہ مخالفت سے کئی قسم کی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ اس بائیکاٹ کی مخالفت کرتے ہوئے صدر ماکروں کے خاکوں کے حوالے سے آزادی اظہار کے بیانیے کو دہرا رہے ہیں اور مغرب کے ساتھ دلیل کے ساتھ مکالمہ کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں مسلم دنیا بائیکاٹ افورڈ ہی نہیں کر سکتی۔ کچھ لبرل حلقے ایسے خیالات کا اظہار بھی کرتے رہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں فرانس میں قتل ہونے والے ٹیچرکے جواب میں فرانسیسی صدر کی طرف سے اسلامی تنظیموں کے خلاف کریک ڈائون درست عمل ہے۔
جہاں تک گستاخانہ خاکوں کی میڈیا میں اشاعت کی بات ہے تو یہ شرمناک فعل کسی آزادی اظہار کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جاتا ہے اور پھر اس کی مزید تشہر کے لیے حکومتی عہدے داروں کی طرف سے اس کی حمایت میں بیان بھی دیے جاتے ہیں، جس کا مقصد مسلم دنیا کے جذبات کا استیصال ہوتا ہے اور اس شرمناک عمل کے خلاف پائے جانے والے جذبات کو آزمانا مقصود ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر بار بارمختلف وقفوں سے اس طرح کا اشعال پیدا کیا جائے تو ایک وقت کے بعد مشتعل ہونے والے لوگوں کے جذبات ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں اور پھر وہ رد عمل نہیں دیتے۔ حکومتی عہدیداروں کے حمایتی بیانات اس بات کی تصدیق کے لیے کافی ہیں کہ یہ عمل کسی اخبار، میگزین یا ویب سائٹ کا ذاتی اور انفرادی عمل نہیں ہوتا۔ نوم چومسکی جیسے سفید فام اسکالر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ مغرب میں آج بھی اسلام کے خلاف تعصب پایا جاتا ہے، جس کا اظہار اسلامو فوبیا کی شکل میں ہوتا ہے اور صلیبی جنگوں کے بعد، مغرب ایک ہزار سال سے مسلسل اسلام کے ساتھ نبردآزما ہے، لہٰذا ان گستاخانہ خاکوں کے محرکات کو لبرل فلسفے میں تلاش کرنے کے بجائے مغرب میں اسلام کے خلاف پائے جانے والے تعصب میں اور مغرب کے سامراجی کردار میں تلاش کرنا چاہیے۔
ان لبرل دوستوں سے ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ جس طرح یہ پاکستان میں وڈیروں، جاگیرداروں اورسرمایہ دار اشرافیہ کی طرف سے ہاریوں، کمیوں اور گھروں میں کام کرنے والے غریب لوگوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اسی طرح فرانس کی اشرافیہ کی طرف سے غریب افریقی اور عرب نژاد فرنچ شہریوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف بھی آواز اٹھائیں۔ ہمارے ہاں کے وڈیروں، جاگیرداروں، اور سرمایہ دار اشرافیہ اور فرانس کی اشرافیہ میں فرق بس چمڑی یا اس کے رنگ کا ہے۔ ہمارے ہاں کالی چمڑی والا ایک طبقہ ہے اور وہاں گوری چمڑی والا ایک ہے لیکن دونوں کا کام ایک ہی ہے، دونوں مظلوم طبقات پر ظلم اور ان کا استیصال کر رہے ہیں۔ جس طرح ہمارے ہاں کے ظالم طبقات، غریب لوگوں سے کام کروا کر انہیں معاوضہ ادا نہیں کرتے اسی طرح فرانس الجیریا پر قبضے کے دوران الجیریا سے کم اجرت کے نوجوان مزدوروں کو اپنے شہروں کے کام کاج کے لیے لاتا تھا کیونکہ جنگ عظیم اول میں مارے جانے والے کثیر محنت کشوں کے بعد فرانس میں افرادی قوت کی کمی تھی یوں الجیریا کے لاکھوں افراد کی جانوں کو فرانس کے جدید تمدن کا ایندھن بنانے کے لیے یہاں لا کر بسایا گیا۔
انہی محنت کشوں نے فرانس میں ریل کی پٹڑیاں بچھائیں، سرنگوں میں کام کیے، انتہائی گرمی اور سردی میں سڑکیں ہموار کیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ تنہائی اور غربت میں شہروں کے مضافات میں خیموں میں زندگی بسر کی۔ آج بھی افریق اور عرب نژاد فرانسیسی شہری غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں اور انہیں یہ حق حاصل نہیں کہ یہ فرانس کے دیگر شہریوں کی طرح اپنی مرضی کا لباس تک پہن سکیں، اپنی مرضی کا عقیدہ اپنا سکیں، یا اپنی مرضی کی ثقافت اور رسوم و رواج کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ جس طرح ہمارے ہاں نچلے طبقے کے لوگ جب حق مانگے ہیں تو ان پر طرح طرح کے الزامات لگا دیے جاتے ہیں، اسی طرح فرانس کی اشرافیہ وہاں کی مسلم اقلیت کو برابری کے حقوق دینے کے بجائے ان پر شدت پسندی کے الزمات لگا دیتی ہے۔
ہمارے لبرل و روشن خیال دوست یہ سب باتیں جانتے ہیں اور یہاں کے ظالم طبقات جب مظلوموں پر الزامات لگاتے ہیں تویہ ان نکی صداقت کو نہیں مانتے اور مظلوموں کا ساتھ دیتے ہیں لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ جب گوری چمڑی والی اشرافیہ اسی قسم کے الزمات مسلمان مظلوم طبقات پر لگاتی ہے تو یہ اس کی صداقت کا فوراً اقرار کر لیتے ہیں؟ جس طرح آپ یہاں کے مظلوم طبقات کے رد عمل کو ان کی مایوسی اور مجبوری میں تلاش کرتے ہیں اسی طرح آپ فرانس کے مظلوم طبقات کے احتجاج کے محرکات کو ان کی پوری زندگی کی مایوسی، بیروزگاری، غربت، افلاس اور عدم مساوات میں تلاش کرنے کے بجائے فرانس کی اشرافیہ کے اسلاموفوبیا کے پروپیگنڈے کا شکار کیوں ہوجاتے ہیں؟
فرانسی صدر عمانویل ماکروں کی وفاداری اور حمایت میں ہمارے لبرل طبقے نے پورا زور لگا کر پروپیگنڈا کیا کہ اس بائیکاٹ سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، الٹا مسلم ممالک سائنس، ٹیکنالوجی، فوجی سازوسامان اور ادویات کی قلت کا شکار ہو جائیں گے اور صدر اِردوان کو یہ کہنے کے بجائے کہ ’’صدر ماکروں کا دماغ خراب ہو گیا ہے کہ اپنے ملک کے مسلمان شہریوں پر ظلم کر رہا ہے‘‘ پہلے مسلم دنیا اور عالمی رائے عامہ ہموار کرنا چاہیے تھی اور بائیکاٹ کی اپیل نہیں کرنا چاہیے تھی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ اس بائیکاٹ کے نتیجے میں صدر ماکروں کو عرب ممالک سے بائیکاٹ ختم کرنے کی اپیل بھی کرنا پڑی اور کل ایک عرب ٹی وی کو انٹریو دیتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’گستاخانہ خاکوں کےحوالے سے مسلمانوں کے جذبات کو سممجھتا ہوں،یہ حکومتی پروجیکٹ نہیں ہے اور نہ ہی ان کو سرکاری حمایت حاصل ہے۔اشتعال کی وجہ میرے حوالے سے منسوب جھوٹی باتیں ہیں جن میں یہ تاثر دیا گیا کہ میں گستاخانہ خاکوں کی تشہیر کا حامی ہوں حالانکہ یہ خاکے نجی صحافتی داروں نے شائع کیے، جو حکومتی اجارہ داری سے آزاد ہیں‘‘۔ کیا اب بھی آپ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اور اسلامو فوبیا کی لہر کے ردعمل میں مسلمانوں کا متحد ہونا اور نتیجتاً فرانسیسی صدر کا جھوٹی وضاحتیں دے کر اپنی گرتی معیشت کو بچانے کے لیے گڑگڑانا پورے یورپ کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟
دنیا بھر کو معلوم ہے کہ صدر ماکروں جھوٹ بول رہا ہے۔ اس کی حکومت، وہ خود اوراکثر حکومتی عہدیدار مسلمان شہریوں پر ظلم و ستم ڈھانے اور خاکے شائع کرنے اور ایسے نفرت انگیز اقدامات کرنے والوں کی حمایت میں براہ راست ملوث ہیں لیکن مالی مفادات کی خاطر اسے بالآخر یہ جھوٹ بولنا پڑا کہ ان معاملات میں اس کی حکومت ملوث نہیں۔ ابھی اسکا دماغ مکمل طور پردرست نہیں ہوا، صرف اس کے ایک حصے نے کام کرنا شروع کیا ہے ۔مسلم امہ اگر متحد ہو کر اس کے ان جنگی اقدامات کا جواب اعلان جنگ کی صورت میں دیتی تو اس کا دماغ مکمل طور رپر درست ہو سکتا تھا۔